جب 13 سالہ دیپا کو اپنے سے 23 سال بڑے آدمی سے بیاہ دیا گیا وہ بہت روئی اورماں باپ سے التجا کرتی گئیں کہ وہ اپنا زہن بدل لیں۔ لیکن اسے کے باوجود شادی کا فیصلہ سنانے کے تین دن بعد ہی ان کو ان کے شوہر کے گھر بھیج دیا گیا۔ کسی نے ان کی نہیں سنی۔
جب محمد عباس خسکھیلی جو کہ پاکستانی تفتیشی آوٹلٹ سجاگ کے رپورٹر ہیں اس سٹوری کو کوور کرنے دیپا سے ملنے گئے، تو دیپا زمین پر ڈری ہوئی بیٹھیں تھیں اور انہوں نے یاد کیا کہ وہ شادی کے وقت اتنی چھوٹی تھیں کہ اپنے ساتھ کھلونے لے کر گئی تھیں۔ اگست میں، نو عمردلہنوں پراسی تفتیش میں، سجاگ نے سولہ سالہ سوناری کی سٹوری شائع کی جو کہ اسقاط حمل کی وجہ سے اپنی جان کھو بیٹھی تھیں۔ ان کے درمیانی عمر کے شوہر نے رپورٹروں کو بتایا کہ وہ انہیں طبی کلینک اس لئیے نہیں لے گر گئے کیونکہ ان کو ڈر تھا کی کہیں نوعمر لڑکی سے شادی کرنے پر انکو گرفتاری نہ ہوجائے۔ (پاکستان کے کئی صوبوں میں، 16 سال سے کم عمر میں شادی قانون کے خلاف ہے)۔
یہ سیریز کئی بے شمار گہری تفتیشی رپورٹوں میں سے ایک ہے جن پر سجاگ رپورٹ کرتا ہے۔ سجاگ ایک صحافتی لانگ فارم ڈجٹل پلیٹفارم ہے جو کہ انگریزی اور اردو میں سٹوریز شائع کرتا ہے۔ اس کے عزم میں شامل ہے کہ وہ طاقت رکھنے والوں کے بجائے معاشرے کے پسماندہ لوگوں کی آواز بلند کرے۔ سجاگ کے ایڈیٹر فخریہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی صحافت غیر جانبدرانیت کے بجائے معشارے کے پسماندہ لوگوں کے ساتھ ہے ۔
اپنی وجہ شہرت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ وہ ان موضوعات کو کورر کرتے ہیں جن کو ملک کے دیگرآوٹلٹ نظرانداز کرتے ہیں، ان کی حالیہ تفتیشوں نے پاکستان میں ہونے والی بین ذات شادیوں کے اثرات، مفلس اور دور دراز علاقوں میں رہنے والی عورتوں کو کورونا وائرس کی ویکسین کی رسائی کی مشکلات اور یہ کہ ملک کے طلاق کے قوانین گھریلو تشدد کو کیسے فروغ دیتا ہے شامل ہیں۔ سجاگ نے دیگر تفتیشوں میں دیکھا ہے کہ کیسے کورونا وائرس ویکسین کو پاکستان کی نجی مارکٹوں میں سیل کیا جاتا رہا ہے، اور پانی کی قلت اسلام آباد کی لوئر مڈل کلاس اور ورکنگ کلاس کو کیسے اثر کرہی ہے اور گوورمنٹ کے طرف سے رکھے ہوئے گندم کی پرائس کیپ چھوٹے کسانوں پر کیسے اثرانداز ہورہی ہے۔
سجاگ کا ہیڈکوارٹر لاہورمیں واقع ہے جو کہ پاکستان کو دوسرا بڑا شہر ہے۔ سجاگ کے پاس 21 فل ٹائم سٹاف ممبران ہیں۔ ہیڈآفس چھوٹا سا ہے اور رہائشی علاقے میں ایک گھر میں واقعے ہے جہاں پررپورٹر اور وڈیو ایڈیٹر ایک ہی کمرہ شئیر کرتے ہیں۔ ایڈیٹرز بھی 10 فریلانس رپورٹروں کے نیٹورک کے ساتھ کام کرتے ہیں جن کوملک بھر سے چھوٹے شہروں اور دہائی علاقوں سے سٹوریز کوور کرتے ہیں کیونکہ اس ٹیم کا مقصد ہے ایسی سٹوریز کرنا جو قومی سطح پرموجود نہیں ہوتیں۔
حالانکہ آفس معمولی سا ہے، یہ آوٹلٹ پاکستان میں نئے آزاد میڈیا تنظیم کے نام سے اپنا نام خود پیدا کررہا ہے، خاص کر کے صوبہ پنجاب میں (پنجابی میں سجاگ کے معنی آگاہی کے ہیں)۔ یہ آوٹلٹ ملک بھر میں واحد ایسی میڈیا تنظیم ہے جو کہ لانگ فارم عوام کی لئیے اردو میں صحافت کررہی ہے۔ یہ اپنے اشتہاروں سے آزاد آمدنی ماڈل کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
کیا اس قسم کی صحافت کی ضرورت ہے؟
سجاگ کی جڑیں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں پائی جاتی ہے۔ لوک سجاگ، وہ غیر منافع بخش تنظیم جو کہ سجاگ کی پیش ور رہی ہے۔ یہ 1990 میں رجسٹر ہوئی اور پنجابی ثقافت کی فروغ اور سرگرمیوں میں مصروف تھی۔ 2013 میں سجاگ کو غیر منافع بخش تنظیم سے ہٹا کر ایک علیحدہ نیوز سائیٹ بنایا گیا جس میں بعد میں وڈیو سروس کو بھی شامل کیا جس نے کافی پزیرائی بھی حاصل کی۔
سال بھر پہلے ستمبر 2020 میں سجاگ کو ری برانڈ کیا گیا تاکہ وہ صرف تفتیشی صحافت پر فوکس کرے۔اس کے پیچھے کئی وجوہات تھیں۔ پہلی، پاکستان میں کوئی اور ڈجٹل پلیٹفارم یہ نہیں کررہا تھا۔ دوسرا، ٹیم ایسے تفتیشی سٹوریز پرکام کرنا چاہ رہی تھی جو کہ طاقت کے پسماندہ لوگو پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور آخر میں، انہوں نے سنجیدہ عوامی سروس کے لئیے تفتیشی صحافت کی ڈیمانڈ کی نشاندہی کی۔
بدرعالم اپریل 2020 سے سجاگ کے ایڈیٹر ان چیف ہیں اور اس سے پہلے 2010 سے 2019 تک ہیرالڈ کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں جو کہ پاکستان کی صحافت کا پریمییر لانگ فارم میگزین تھا۔ عالم نے جی آئی جے این کو بتایا کی سجاگ ہر ہفتے چھ تفتیشی سٹوریز شائع کرنے کا ارداہ رکتھا ہے جو کہ رپورٹروں کو کافی وقت مہیا کرتا ہے کہ وہ سٹوری کی گہرائی میں جا سکیں۔ “ہم اس بات پر توجہ دے رہے ہیں کہ ہمیں کون پڑھ رہا ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے ہم مواد پروڈیوس کررہے ہیں،” عالم نے کہا۔ جبکہ پڑھنے والوں کی اعدادو شمار موضوعات کے مطابق بدلتی رہتی ہے، ٹیم کا کہنا ہے کہ انکی مقبول ہونے والی اسٹوریز کو سولہ ہزار(16000) منفرد ویوز حاصل ہوئے ہیں جس میں زیادہ تر شئیر فیس بک اور ٹوئیٹر جیسے پلیٹفارم سے حاصل ہوتے ہیں۔
تفتیشی صحافت کی طرف رجحان اس وقت ہوا جب ٹیم نے ایسی سٹوریز پر کام کرنے کا فیصلہ کیا جن کو جلدی نہیں بھلایا جا سکتا۔ عالم کے مطابق، یہ خواہش بھی تھی کے ملک بھر میں سنجیدہ صحافت کے مقام کو بڑھایا جائے: کہ لوگوں کی سماجی اور معاشی ضرورتوں کو نمایاں کیا جائے اور ملک کے اہم مسائل پر آگاہی بڑھائی جائے۔
آصف ریاض سجاگ سے ساتھ 2016 سے کام کررہے ہیں۔ ان کی زراعت پر رپورٹنگ کے باعث، ایک اہم بیٹ جس میں ملک کی چالیس فیصد مزدور کام کرتے ہیں، کھیتوں پر کام کرنے والے اب اپنے مسائل بتانے کے لئیے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ وہ صوبہ پنجاب کے مرکز میں سفر کرتے ہیں تاکہ کسانوں کی سٹوریزکریدیں اور دنیا کو بتائیں۔ “سجاگ کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کوئی ڈیسک سٹوریز نہیں ہوتیں اور ہم سفر کر کے لوگوں تک جاتے ہیں اور سٹوریز پروڈیوس کرتے ہیں۔”
پاکستان کے میڈیا ماہرین بھی سجاگ کی منفرد نقطہ نظر کو سراہتے ہیں۔ “سجاگ جس طرح کی صحافت کرتا ہے میں اس طرح کا کام کرنا چاہتا ہوں لیکن نہیں کرسکتا کیونکہ میں ایک کمرشل میڈیا تنظیم کے لئیے کام کرتا ہوں۔” اشررحمان نے کہا، جو کہ انتہائی قابل احترام اخبار ڈان کے سینئیر صحافی اور سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔
ایک جابرانہ ماحول
ان رپورٹروں کا کام خاص معنی رکھتا ہے اس ماحول کو دیکھتے ہوئے جس میں یہ رپورٹر کام کرتے ہیں۔ پاکستان 2021 کے رپورٹرز ودآوٹ بارڈر فریڈم اینڈیکس (بی ایس ایف ) میں 180 میں سے 145 نمبر پر رینک ہوا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رپورٹنگ لے لحاظ سے دنیا کا مشکل ترین ملک ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو ان کی حکومت کی جانب سے میڈیا آوٹلٹ پر جابرانہ سلوک کی وجہ سے آر ایس ایف کی طرف سے “پریڈیٹرآف پریس فریڈم” کہا گیا ہے۔ سیکورٹی صورتحال بھی چیلنج کا شکار ہے۔ 2020 میں چار صحافی اپنی رپورٹنگ کے کنیکشن کی وجہ سے مارے گئے تھے “خاص کر کے کرپشن اور منشیات کی سمگلنک کی تفتیشی رپورٹنگ کی وجہ سے” آر ایس ایف کی حال ہی کہ رپورٹ کے مطابق۔
اس اقدام پر اعتراض کرنے والوں پر کوئی توجہ نہ دیتے ہوئے، گورمنٹ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بھی تشکیل دے رہی ہے جو کے ایک نئ ریگیولیٹری اتھارٹی ہوگی جس کو ہر طرح کے میڈیا پر اختیار ہو گا۔ اس کے پاس یہ بھی طاقت ہوگی کہ گورمنٹ پر تنقید کرنے والے صحافیوں پرسزا کے طور پر بھاری جرمانہ لگا سکیں۔
آر ایس ایف ایشیا پیسفک کے سربراہ ڈینیل باسٹرڈ کا کہنا ہے کہ اس بل میں “مرکزی سینسرشپ کی بنیاد موجود ہے جوعموماً بد ترین آمرانہ حکومتوں میں پائی جاتی ہیں”
عالم اس بات سے خبردار کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم اے کا اصل مقصد ڈجٹل میڈیا کو پاکستان میں روکنا ہے ۔ “ہم ایک متبادل حکمت عملی پر کام کررہے ہیں جس سے ہم اپنا مواد پھیلا سکیں گے اگرگورمنٹ پی ڈی ایم اے کے ذریعے ہماری ویب سائیٹ پر پابندی لگاتی ہے۔
لیکن اس کے علاوہ بھی دیگر چیلنجز ہیں۔ فاطمہ رزاق سجاگ کے ساتھ پچھلے سال سے کام کررہی ہیں اور انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کی سٹوری سیریز کوور کررہی ہیں۔ انہوں نے ایسے مردوں اور عورتوں پر سٹوریز کیں جو کہ تیزاب پھینکنے سے زبردست طریقے سے جل اور مسک ہو گئے تھے۔ رزاق اس کو”ویپن فرام ہیل” کہتی ہیں۔ اس سیریز نے دستاویز کے مدد سے تفتیشی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک تنظیم میں فراڈ کی جانچ پڑتال کی جس پر الزام تھا کہ وہ تیزاب سے متاثر لوگوں کی مدد کرنے کے نام پر پیسوں کی ہیرا پھیری میں ملوث ہے۔
اس رپورٹنگ کے بعد میڈیا ڈولپمنٹ تنظیموں نے رزاق کو انٹرویو کیا لیکن ان تکلیف دہ موضوع کو کوور کرنے کے نتائج ہوتے ہیں: سیریز کو شائع کرنے کے بعد رزاق کو کلینیکل ڈپریشن ہوگیا۔ ” میں بہت زیادہ ٹراما رپورٹنگ کرتی ہوں اور ڈپریشن سے گزرنا اس کا ایک فطری نتیجہ ہے،” رزاق نے بتایا، جن کا ٹریٹمنٹ سجاگ کے تعاون سے ہو رہا ہے۔
لیکن ان کی یہ تیزاب پھینکنے والوں کئ کیسز اور واقعات کی پروفائلنگ نے انکو ہائی پروفائل بھی فراہم کی ہے۔ “جب بھی ہندوبرادری میں زبردستی مزہب تبدیلی کا واقعہ ہوتا ہے لوگ مجھے سوشل میڈیا پر ٹیگ کرتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ میں اس مسئلے پر روشنی ڈال کر ان کو انصاف دلوا سکتی ہوں۔”
اس کے ساتھ ساتھ ایسے ممنوع اور نازک موضوعات پر بات کرنے سے چیلنجز ہوتے ہیں جس سے سٹاف جزباتی اور جسمانی زیادتی اور خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ رزاق جو کہ آفس میں ایکوئیٹی آفیسر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ٹیم رپورٹروں کے لئیے حفاظتی پروٹوکول اور خواتین رپورٹروں کے لئیے بنیادی حفاظتی کٹ جس میں ٹیزر اور پیپر سپرے شامل ہیں فراہم کرے گی۔”
ممبرشپ ماڈل کے لئیے کوششیں کررہے ہیں
فلحال، سجاگ اپنی پیرنٹ تنظیم لوک سجاگ کی فنڈنگ سے چلتا ہے اور اکثر انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (آئی ایم ایس) اور کمیونٹی ورلڈ سروس جیسی گرانٹ تنظیوموں پر گرانٹ کے لئیے درخواست دیتا ہے۔ اور جبکہ وہ اپنا بجٹ بتانا پسند نہیں کرتے، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اگلے 18 مہینے تک اپنی موجودہ صلاحیت کے ساتھ بغیر فنڈنگ کے کام کرسکتے ہیں۔ ان کی ویب سائیٹ سے جو بھی آمدنی بنتی ہے وہ پلیٹفارم میں واپس عوامی دلچسپی کی صحافت کے لئیے واپس ڈال دی جاتی ہے۔
لیکن سجاگ کے بلند نظرارادوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کو ماہانہ ادائیگی کرنے والے صارفین میں بدل لیں جو کے پھر تنظیم کی ایڈوٹوریل اور مینجیرئیل افئیر میں اپنا کردارادا کرسکیں گے۔ ان کے چیف ایڈیٹر کا ارادہ ہے کے اگلے تین سالوں میں 10,000 ادائیگی دینے والے سپورٹر بن جائینگے جو کے سالانہ 100 ڈالر کے لگ بھگ ادائیگی دے پائیں گے۔ پاکستان کی اوسط گھرانے کی ماہانہ آمدنی 200 ڈالر کے قریب ہے۔ اگر یہ اپنا ٹارگٹ حاصل کرلیتا ہے، سجاگ مالی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے اور اشتہاروں اور کارپوریٹ دنیا کے اثر رسوخ سے بھی آزاد رہ سکتا ہے۔
عالم کا کہنا ہے کہ سجاگ کو سب سے بڑا چیلنج ٹیکنالوجی کا ہے۔ “ہمارے پاس وہ مہارت نہیں ہے،” وہ کہتے ہیں۔ ٹیم اپنی صلاحیت کو رپورٹنگ، مارکٹنگ اور بزنس پلاننگ کو مظبوط کرنے میں لگا رہی ہے۔”
علاقائی فوکس کو بڑھانے کے لئیے، سوجاگ 35 علاقائی کلسٹر بنانا چاہتا ہے اور اور ہر ایک میں رپورٹر کو تربیت دے کر کوور کرانا چاہتے ہیں۔ اس طرح ان کے پاس 50 فل ٹائم لوگوں کی ٹیم 2023 تک بن جائے گی تاکہ تفتیشی صحافت کو ملک بھر میں پھیلایا جا سکے۔
کیا یہ قابل عمل ہے؟ “یہ کرنا مشکل ضرور ہے لیکن سجاگ کی موجودہ ٹیم کے پاس اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے” رحمان نے کہا، یہ شامل کرتے ہوئے کہ اس پہلے آج تک پاکستان کی کوئی میڈیا تنظیم بغیر کمرشل ہوئے کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ “اگر سجاگ پڑھنے والوں پر مبنی اس ماڈل کو لاگو کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ پھر پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے لئیے ایک گیم چینجر ہے۔”
_____________________________________________
عدنان عامر پاکستان میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں۔ وہ کمیونٹی پر مبنی آن لائن میڈیا پلیٹ فارم بلوچستان وائسز کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا میں سیاست، معیشت، تنازعات اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ان کا کام فنانشل ٹائمز، نکی ایشیا، اور ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں شائع ہوا ہے۔