انڈیا کے کووڈ۔19 پینڈیمک کی کہانی ان کی خواتین صحافیوں کی زبانی 

Print More

انڈیا کووڈ19

صحافی ڈیچن اونگمو نے بھارت کے شمالی مشرق کے صوبے سکم میں اپنا گھرچھوڑا تاکہ اپنے بہن کے نومولود بچے کو انفیکشن نہ لگے، اپنے لمبے بال کاٹے تاکہ وہ بہتر طور پر اپنے آپ کو رات میں ڈس انفیکٹ کرسکیں اور حکومت کا دیا ہوا بونس واپس کیا کیونکہ ان کو یقین تھا کہ انکے کچھ ساتھیوں نے اس کو نااہلی طور پر اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔ 

دہلی میں ایک اور صحافی نے سٹوری فائل کی اس کے باوجود کے انہوں نے اپنی پیاری دادی کو آنلائن خیرآباد کہا تھا جب ان کی طبیعت اچانک سے بگڑ گئی۔ ان کے خاندان کو پتا تھا کہ وہ اپنا کام نہیں چھوڑیں گی حالانکہ وہ اپنی دادی کے ساتھ ان کے آخری وقت میں ساتھ ہونے کے لئیے بے تاب تھیں۔

اس سال مئی سے جولائی تک جیسے بھارت کورونا وائرس کی دوسری لہر سے گزر رہا تھا، 39 ریاستوں کی 40 خواتین صحافیوں نے آنلائن سیشن کئیے جس میں انہوں نے اپنے رپورٹنگ کے تجربات بتائے جس میں انہوں نے غیر معلومی پروفیشنل اخلاقیات اور عزم کا مظاہرا کیا۔  کئی نے انفیکشن کا خطرہ بھی لیا ایسے ہسپتالوں میں جا کر جہاں پر احتیاطی تدابیر اتنی مضبوط نہیں تھی تا کہ فیملی کی اسٹوریز بتا سکیں جن اکی پیارے سانس لینے کے لئیے لڑ رہے ہیں یا ایسے گاوؐں میں جارہے تھے جہاں پر لوگوں نا معلومات کے باعث مر رہے تھے یا ٹرانسپورٹ اور ڈاکٹر کی کمی تھی۔ کئی نے شمشان گھاٹ میں جا کر لوگوں کے گالیاں اور دھمکیاں بھی سنیں جب وہ میتیں گننے گئیں۔ 

کچھ اپنی پیشہورانہ ڈیوٹی سے آگے بڑھ کر اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئی ایس او ایس کالز کو حل کرنے بھی گئیں۔  انکی راتیں بیوروکریٹس اور اسپتال کی کوورڈینیشن میں گزرتیں اور راتوں کو اس ہی ملال میں رہتیں کہ وہ ساری کالز کی مدد نہیں کرسکیں۔ 

جب گیدر سسٹرز، ایک دہلی کا فیمینسٹ گروپ اس سفر نکلا جس کا نام دا مومنٹ ایزشی نوزاٹ تھا، کووڈ 19 کی ایک زبانی تقریری جو کہ بھارت کے خواتین صحافیوں نے دیکھی تھی، کئی لوگ اس میں شامل ہوئے ایک جانی پہچانی بائی لائن کی آواز سننے کے لئیے لیکن جلد ہی  لوگ روزانی شام 7 بجے لاگ ان ہوجاتے کیونکہ کوئی بھی دلچسپ اسٹوری کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ 

انڈیا کووڈ19

ان سیشنز کا مرکزی فوکس پینڈیمک تھا لیکن بشکریہ گیدرسسٹرز کی بانی ٹیتھیا شرما اور ان کے سامعین گھنٹوں کی اسٹوریاں ریاستوں میں عورتوں کے سارے مسائل پرہوگئیں۔ جس کا مطلب تھا سب کچھ ۔  

یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ جوان صحافی ان ایونٹ کو عورتوں کے نطرئیے سے دیکھنے لگے۔ سماجی صحت کے ورکر جو پینڈمیک کی فرنٹلائن پر کام کررہی تھیں ساری اسٹوریز میں ایک دھاگے کی طرح چل رہی تھیں۔ 

دا ٹریبیون کی روچیکا ایم کھنا جو کہ پاکستان کے ساتھ بارڈر پنجاب میں ہوتی تھیں انہوں نے عورتوں کے لئیے پینڈمک اور لاکڈاون کا ڈبل بوجھ بیان کیا۔ صرف گھر بار کو ہی نہ دیکھنا بلکہ ایک بیروزگار خاوند کے ساتھ بھی ڈیل کرنا۔ انہوں نے بتایا کہ کسانوں کی جاری احتجاج نےعورتوں کو انکے گھر کی زمہ داری کے ساتھ ساتھ فصل کی دیکھا بھالی کی ذمہ داری ڈالی۔

دا پرنٹ کی جیوتی یدو، ایک پبلیکیشن جو کہ خبروں اور تجزیہ پر فوکس کرتا ہے، انکی ایک زبردست اسٹوری ایک حاملہ مائگرنٹ مزدور کی کہانی تھی جس کے خاوند گھرواپس آنا چاہتے تھے اگر اس اسکا مطلب یہ تھا کے بیوی راستے میں ہی بچہ پیدا کر لے۔ یدو نے یقین دہانی کی کہ اسکی بیوی اسپتال میں ہی ڈیلور کرے، لیکن جب اسکو پتا چلا کہ بچہ اور ماں دونوں صحت یاب ہیں وہ رو پڑا یہ سن کر کے بیٹی ہوئی ہے جو کے انکی پانچویں تھی۔  کشمیر کی فریلانس صحافی، قرتلعین رہبر نے بتایا کہ پینڈیمک میں عورتون کی حالات کتنی خران ہوگئی تھی ایسے علاقے میں جو اگست 2019 سے ملٹری لاکڈاوؑن میں تھا جب آئین کا آرٹیکل 370 لاگو کیا گیا تھا جس سے اسکا خاص اسٹیٹس واپس لے لیا گیا تھا۔ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی صورت میں عورتیں میلوں کا سفر پیدل کاٹتی تھیں اور پاس سے جانے والی گاڑیوں سے مدد مانگنے سے ڈرتی تھیں۔ قریب ہی پولیس اسٹیشن جانا اس بدلتے سیاسی ماحول میں ایک خطرناک عمل تھا کیونکہ ریاست نے عورتوں کا کمیشن بھی ختم کردیا تھا تو جو عورتیں گھریلو تشدد میں پھنسی ہوئی تھیں ان کے لئی کوئی ریلیف نہیں تھا۔  

پیشے میں دس سال سے کم گزارنے کے باوجود کئی رپورٹرز جو آنلائن سیشن میں شامل تھیں انہوں نے پسماندہ کمیونیٹیز کو کوور کرلیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی کریتھیکا سرینوسن نے ٹامل ناڈو کی قبائلی لڑکیوں کی کالج میں داخل ہونے کی مشکلات بتائیں۔ فریلانسر چاندوسری ٹھاکر جن کا تعلق ملک کی مشرقی ریاست جھرخند سے تھا انہوں نے وچ ہنٹنگ کے بارے میں بتایا اور ایک نارا “ہم سب دائن ہیں” (ہم سب چڑیلیں ہیں) کے بارے میں بتایا کہ ایسی عورتوں کا قتل صرف اس لئیے ہوتا ہے کیونکہ مرد انکی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ 

چھتسگڑھ کی قبائلی رپورٹر پوشپا روکڈے جن کا تعلق پراخار سماچار اخبار سے تھا  انہوں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظالم کے باے میں بتایا جو کے بستر ڈسٹرکٹ کے قبائلی لوگوں کے ساتھ ہورہے تھے اور اس کھلی حقارت کے بارے میں بتایا جو غیر قبائلی افسران قبائلی عورتوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

بہار میں دو سینئیر صحافیوں نے  ایک بلکل ہی الگ دنیا بیان کی یہ بتاتے ہوئے کہ نوعمر لڑکیوں کی راتوں رات اجنبیوں کے ساتھ شادی کردی جاتی جو کہ انکو بعد میں جسم فروشی کے لئیے بیچ دیتے اور کیسے جوان لڑکوں کو اغوا کرکے زبردستی شادی کردی جاتی تاکہ جہیز نہ دینا پڑے۔ ” ایک بہاری کی زندگی بہت سستی ہے۔” انہوں نے رنجیدہ ہوکر بتایا۔

سنوائی کے لئیے لڑںا

دیگررپورٹز نے پینڈیمک سے پہلے کے بھارت میں رپورٹنگ چیلنجز کے بارے میں بتایا۔ 

مرد بیوروکریٹ اور سیاست دانوں کی طرف سے سنجیدہ نہ لینا ایک پیشہ ورانہ خطرہ تھا۔ ” مجھے فضول سوالوں کے لئیے تنگ نہ کریں” یا “آپکو سمجھ نہیں آئے گا ،چھوڑیں” جیسے جوابات خواتیں رپورٹر کو افسران سے سننے کو ملتے۔ انڈین ایکسپریس کی ارم صدیق جنہوں نے ممبئی میں اپنی آرام دہ نوکری چھوڑ کر مادھیا پردیش میں اسپیشل کورسپونڈنٹ بنی، ایک ریاست جس کے بارے میں انکو کچھ نہیں پتا تھا، ان سے ایک سینئیر سیاستدان نے پوچھا کہ انکی کیا عمر ہے اور انکا ریاست کے بارے میں کم معلومات ہونے پر مزاق اڑایا۔

ڈیپٹھی بتھینی اور دا پرنٹ کی ریشیکا سدام جن کا تعلق اندھرا پردیش سے ہے انہوں نے یاد کی کہ پریس کانفرنسوں میں اپنے سنوانا کتنا دشوار ہے۔ جب کے جیوتی یدو کے ساتھ بہار کے مائگرنٹ مزدوروں نے ہیکل کی تھی، بتھینی کے اوپر پانی کی تھیلیاں پہینکی گئی تھیں جب وہ سیاسی ریلیاں کوور کر رہی تھیں۔

اس سب کے باوجود، بڑے شہروں میں جوان لڑکیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں اس کی بہار کی صحافیوں کی نشاندہی کی۔ نہ تو صرف انکو گھر کی اور دفتر کی زمہ داری کو متوازن طریقے سے سنبھالنا تھا بلکہ غیر محفوظ عوامی ٹرانسپورٹ میں بھی جدوجہد کرنی تھی۔ انکے مرد ساتھی ان سے کہتے کہ انکی رپورٹ کا ترجمہ کریں اور یہ بھی کہتے کہ کیسے ان لڑکیوں اس وقت شام میں اپنے گھر پرہونا چاہئیے ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی صلاحیتوں کو سیاسی اورتفتیشی رپورٹنگ میں منوانے کے لئیے بہت زیادہ پریشر تھا۔ 

ان صحافیوں نے چیلنج کا مقابلہ کیا اپنی زہنی صحت کی قیمت پر، راجنی شنکر نے کہا جن کا تعلق یونائیٹد نیوزآف انڈیا ایک اخبار ایجنسی سے ہے۔  

جیوتی یدو نے حریانہ واپس آکر ایک اور بڑے مرحلے کا مقابلہ کیا جب وہ ایک موبائیل کے ساتھ جینز پہن کر انٹرویو کرنے گئیں ایسے لوگوں میں جنہوں نے جینذ اور موبائیل پر لڑکیوں کے لئیے پابندی لگا دی تھی۔ 

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسکی باقاعدہ سامعین اسلام آباد سے انسانی حقوق کی محافظ طاہرہ عبداللہ تھیں۔ ان کو یہ اسٹوریز گھر جیسی ہی لگ رہی تھیں کیونکہ افسوس کی بات یہ تھی کہ یہ سب جانی پہچانی تھیں۔ پدرشاہی کی رویے، جنسی حراسانی، یہ ایک بارڈروں کے درمیان ایک بہنوں والوں تاثر دے رہیں تھیں۔ 

جب گیدرسسٹرز نے اس سیریز کو جنم دیا اس وقت کووڈ کی دوسری لہر اپنی چوٹی پر تھی۔ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ شہریوں کے ساتھ جھوٹ بولا جارہا ہے اور اس کا کیونکہ کوئی احتساب نہیں ہوگا، گروپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسے لوگوں سے سچ سنا جائے جو عینی شاہدین ہیں اور بااعتبار لوگ ہیں۔ انکے نیٹورک کے بدولت یہ مشکل نہ تھا کہ مختلف رپورٹر کو ڈھونڈا جائے اور اس میں ایک معیار تھا کہ وہ “نیوزہاوؐنڈ” ہوں اور اتنی ہمت اور صلاحیت ہو کے سرکاری بیانئے کا مقابلہ کرسکیں۔ ان میں سے کسی کو بھی معاوضہ نہیں دیا گیا۔

بانی ٹتھیا شرما نے کہا کہ اس سیرز سے انکو اندازہ ہوا کہ یہ خاتون رپورٹر ہونے کے لئیے بہت خطرناک وقت ہے۔ 

________________________________________________

جیوتی پنوانی ممبئی میں مقیم ایک فریلانس صحافی ہیں اور فرقہ واریت ، انسانی حقوق اور میڈیا سے متعلق ان کی رپورٹیں اور تجزیے قومی اخبارات اور نیوز ویب سائٹس میں شائع ہوئے ہیں جن میں ٹائمز آف انڈیا ، دی انڈین ایکسپریس ، دی ہندو ، دکن ہیرالڈ ، ریڈیف ڈاٹ کام ، سکرول اور آرٹیکل 14 شامل ہیں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *