کراچی: جدید میٹروپولیس میں مسائل کی تحقیقات کے لیے نقشے اور ڈیٹا کا استعمال

Print More

پاکستان کا شہر کراچی، ملک کا مالیاتی مرکز، تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے کے لیے ایک مشکل  جگہ ہے۔ تصویر: انسپلیش، اسامہ طیب

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی دارالحکومت ہے، لیکن اکثر یہ ان شہروں کی فہرست میں شامل رہتا ہے جنہیں ناقابل رہائیش سمجھا جاتا ہے۔ 

ایسا کیوں ہے اسک کی نشاندہ کرنا مشکل نہیں: اس وسیع ساحلی شہر کے رہائشیوں کو شہری سیلاب، صاف پانی کی کمی اور عوامی ٹرانسپورٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاضی میں سیاسی تشدد کی وجہ سے شہر کے حالات خراب رہے ہیں۔

لیکن یہ چیلنجز تحقیقاتی رپورٹنگ کے لیے زرخیز ہیں۔ سال بہ سال، ملک کی کچھ بہترین کہانیاں لینڈ مافیا، کراچی کی غائب ہوتی ہوئی ساحلی پٹی، پرائیویٹ مارکیٹ میں سرکاری پانی بیچ کر منافع کمانے والے گروہوں، یا محض شہر کے جرائم کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے سے آتی ہیں۔

ایسا پاکستان میں، مغربی ممالک کے مقابلے میں عوامی معلومات تک رسائی مشکل ہونے کے باوجود ہو رہا ہے۔ یہ کہانیاں سنسرشپ کے دباؤ کے باوجوب بھی لھی جا رہی ہیں۔ 

کچھ لوگوں کے لیے، جیسے کہ ماہم ماہر، جوآج انگلش کے ساتھ ساتھ کئی اداروں میں مرکزی ایڈیٹر رہہ چکی ہیں، کراچی کے دیرینہ نظامی مسائل پر توجہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت سے آتی ہے کہ کراچی جس شہر میں وہ رہتی ہیں کام کیسے کرتا ہے۔ ماہر، جو لندن میں پلی بڑھی ہیں لیکن اب کراچی کو اپنا گھر کہتے ہیں، کہتی ہیں، ’’میں نے محسوس کیا ہے کہ سب کچھ گڈ گورننس سے ہی منسلک کیا جا سکتا ہے۔”

سٹی ڈیسک پر کام کرتے ہوئے، ماہر نے محسوس کیا کہ پرانے روایتی اخبارات میں توجہ سیاست پر مرکوز کر رہتی ہے، جو انہیں بے کار معلوم ہوئی۔ اس کے بجائے، وہ ایسی کہانیاں چلانا چاہتی تھی جس سے وہ اپنے شہر کو سمجھ سکیں، اور اس کے نظامی مسائل اور خدشات کو اس طرح بیان کیا جائے جس سے ان کے سامعین بھی اپنے ارد گرد کیا ہو رہا ہے اس پر قابو پا سکیں۔ اور اس لیے وہ فلائی اوور اور سیوریج کے نالوں کو، اپنے ہی الفاظ میں، “سیکسی” بنانے نکلیں۔

2015 میں بطور ٹرینی رپورٹر انیب اعظم کی پہلی بیٹس میں سے ایک کراچی میونسپلٹی تھی اور ابھی بھی وہ اسی قسم کی کہانیاں کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کے میٹرو پیجز پر مقامی سٹی گورنمنٹ رپورٹر کے طور پر شروعات کرنے کے بعد سے، ان کی توجہ کا ایک شعبہ زمینوں پر قبضہ – یا دھوکہ دہی یا زبردستی سے جائیداد حاصل کرنا رہا ہے – جس کے لیے کراچی بدنام ہے۔ جہاں زیادہ تر رپورٹرز مقامی شہر کی بیٹس کے بجائے سیاست پر رپورٹ کرنا چاہتے ہیں ، اعظم کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ میونسپل انتظامیہ پر متوجہ رہے ہیں۔ اب دی نیوز انٹرنیشنل کے رپورٹر ہیں جو پاکستان کے انگریزی زبان کے سب سے بڑے اخبارات میں سے ایک ہے اور کراچی خود ان کی بہت سی کہانیوں کا ذریعہ ہے۔ “اس کے علاوہ، کوئی بھی اس پر نہیں لکھ رہا ہے لہذا رپورٹ کرنے کے لیے کافی جگہ ہے،” وہ کہتے ہیں۔

تو، صحافی معلوماتی خلاء اور مخالف عوامی عہدیداروں کے سامنے نظامی میونسپل مسائل کو کھودنے کے لیے کون سے طریقے اپنائیں؟ اور ان تجربات سے کراچی جیسے شہروں میں صحافی کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ہم نے اعظم اور ماہر سے کراچی جیسے بڑے اورپیچیدہ شہر میں معلومات حاصل کرنے اور کہانیوں کو کھودنے کے لیے ان کی بہترین تجاویز مانگیں۔

نقشے اور ڈیٹا تلاش کریں۔

پاکستان میں عورتوں کو اکثر شدید پدرانہ اور روایتی خیالات کا سامنا رہتا ہے اس لیے ماہر جانتی تھی کہ انہیں معلومات

ماہم ماہر اور ایک ساتھی نے کراچی بھر میں ریپ کے مبینہ واقعات کا نقشہ بنانے کے لیے پولیس کا ڈیٹا استعمال کیا۔ تصویر: سکرین شاٹ، سماء انگریزی

اکٹھا کرنے کے جدید طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔ جہاں مرد رپورٹر ذرائع کے ساتھ رابطہ بنانے کے لیے ان  کے ساتھ چائے اور کافی پی سکتے ہیں، یا پولیس سٹیشنوں میں رابطے بڑھانے اور معلومات حاصل کرنے کے لیے گھوم سکتے ہیں،ماہر کے پاس یہ  آپشن موجعف نہیں تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ “نقشوں نے پورے شہر کو ایکے نئے طریقے سے دیکھنے کا طریقہ پیش کیا،”۔ اور ڈیٹا جرنلزم کا مطلب تھا کہ وہ قارئین کو شہر کے مسائل کے بارے میں ٹھوس معلومات فراہم کرنے کے قابل تھیں، اور ان دونوں کو ملا کر، انہوں نے کراچی کے پریشان کن مسائل پر رپورٹنگ کا ایک نیا طریقہ تلاش کیا۔

ایک تفتیش کے لیے، انہوں نے ریپ کے رجحانات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کے لیے شہر بھر میں ریپ کے اعدادوشمار ڈھونڈے، ان کا نقشہ بنایا تاکہ قارئین اس کے نتائج کو دیکھ سکیں۔ ایک بار جب انہوں نے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا طریقہ طے کرلیا، تو انہوں نے ہر کیس کو پڑھا اور اعداد و شمار کو ایکسل سپریڈشیٹ میں ڈالا۔ ایسا کرنے سے، وہ یہ بتانے میں کامیاب رہی کہ کیس کہاں پیش آئے، اور محنت کش طبقے کے اضلاع اور صنعتی علاقوں میں زیادہ تعداد میں واقعات کی نشاندہی کی۔

ایک اور کہانی میں، انہوں نے ایک پولیس ذریعہ سے لیے گئے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے تصادم اور مشتبہ اموات کی منصوبہ بندی کی جس میں ایک متنازعہ اعلیٰ پولیس افسر کی یونٹ شامل تھی۔

نقشے تاریخی تحقیقات کے لیے بھی کارآمد ہو سکتے ہیں۔ گٹر باغیچہ پر اعظم کی کہانی میں بتایا گیا کہ کس طرح ایک عوامی پارک، جو نیویارک کے سنٹرل پارک سے بڑا تھا،  پر آہستہ آہستہ قبضہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں “ایشیا کی سب سے بڑی شہری سبز جگہ” کو نقصان پہنچا۔ کہانی میں دو نقشے تھے – تاریخ 1946 اور 2008 – جس نے قارئین کو یہ دیکھانے میں مدد کی کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ کس طرح تبدیل ہوا اور یہ دکھایا کہ تعمیر سے کس کو فائدہ ہوا۔

نئے طریقوں سے کہانیاں سنائیں۔

کراچی کے سب سے بڑے پبلک پارک میں نجی تجاوزات کے بارے میں انیب اعظم کی تحقیقات کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیا گیا نقشہ۔ تصویر: سکرین شاٹ

ماہر کا کہنا ہے کہ کراچی میں بہت سی بڑی، ساختی کہانیاں سطح پر ایک جیسی ہیں، چیلنج یہ ہے کہ انہیں نئے دلچسپ طریقوں اور گہرائی سے بیان کیا جائے۔ ایسا کرنے کے لیے، وہ بہتر فہم کے لیے معلومات اکٹھا کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، “میں جو کچھ کاغذ پر ڈال رہی ہوں اس کے علمی عمل کو یقینی بنانا ضروری ہے۔”

دی نیوز انٹرنیشنل کے تفتیشی رپورٹر انیب اعظم۔ تصویر: بشکریہ اعظم

اعظم کی کہانی ہیوی ٹول آف ڈیولپمنٹ فرینزی آن کراچی کوسٹ تھرڈ پول میں چھپی، ایک نیوز ویب سائٹ جو ہمالیہ کے آبی علاقوں کا احاطہ کرنے کے لیے وقف ہے۔ اس میں انہوں نے یہ دکھانے کے لیے سیٹلائٹ امیجری کا استعمال کیا کہ کس طرح شہر کے واٹر فرنٹ پر دوبارہ دعویٰ کیا گیا اور ایک دہائی کے دوران خصوصی رئیل اسٹیٹ کے ساتھ تعمیر کیا گیا۔ اس کے شہر کی ساحلی پٹی پر بے شمار اثرات مرتب ہوئے ہیں: شہر کے امیروں کے لیے مکانات کی ترقی اب ماہی گیروں اور وہاں رہنے والی مقامی آبادی کے لیے سمندر تک رسائی کو روکتی ہے۔ اس کے ماحولیاتی اثرات بھی نمایاں ہیں۔

اعظم کہتے ہیں، “میں اکثر اپنے کام میں گوگل ارتھ کا استعمال کرتا ہوں، کیونکہ یہ اتنا آسان ٹول ہے اور یہ واقعی آپ کو یہ دیکھنے میں مدد کرتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ زمین پر کیسے اور کہاں تجاوز کیا گیا۔ وہ کچھ ٹولز کے لیے ملک کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی تک بھی پہنچے “جن سے مجھے زمین کی بحالی کو دیکھنے میں مدد ملی،” وہ کہتے ہیں۔

متبادل ذرائع تلاش کریں۔

ماہر اور اعظم کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ نظامی میونسپل مسائل پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی اپنے ذرائع کو مثلث بنا سکتے ہیں جہاں عوامی ریکارڈ میں خلاء موجود ہیں: معلومات کے لیے این جی اوز، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینکس، اور انفرادی سرکاری اہلکاروں سے رابطہ کریں۔

“کراچی میں نچلی سطح پر کچھ واقعی اچھے ماہرین تعلیم کام کر رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اور بعض اوقات یہ بیوروکریسی کے اندر کی تصویر سے مختلف ہوتا ہے،‘‘ ماہر بتاتی ہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مختلف جوابات کا موازنہ کرکے رپورٹرز سچائی کا پتہ لگاسکتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’میں تب ہی انٹرویو کرنا چھوڑ دیتی ہوں جب سب ایک ہی بات کہنا شروع کر دیں۔

حقائق قائم کریں۔

جب ماہر نے 20 سال پہلے ایک نیوز روم میں کام کرنا شروع کیا تو ڈیٹا کے بارے میں کم معلومات موجود تھی۔ “ڈیٹا کی عدم موجودگی، یا تو یہ آپ کو مفلوج کر دیتی ہے یا آپ زیادہ متجسس ہو جاتے ہیں،” وہ کہتی ہیں۔ وہ متجسس ہوگئی۔

ماہم ماہر۔ تصویر: بشکریہ ماہر

معلومات میں خلاء نے انہیں کچھ ایسے حقائق کی تلاش میں مبتلا کیا جنہیں وہ “مستحکم حقیقت” کہتی ہیں جو کراچی جیسے شہر میں تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔

وہ کراچی کی پانی کی فراہمی کے بارے میں ایک کہانی پر کام کرتے ہوئے اس مستحکم حقیقت کی ایک مثال دیتی ہے۔ وہ ایک بہت ہی بنیادی سوال کا جواب دینا چاہتی تھیں: کراچی شہر کو کتنے پانی کی ضرورت ہے؟ انہوں نے جو کچھ بھی پڑھا اس میں ایک یا دو اعداد دہرائے گئے، لیکن اصل ماخذ کا پتہ لگانے میں کافی وقت لگا: کراچی کی ایک کارکن کی رپورٹ اور ایک تحقیقی پروجیکٹ جس کا بار بار حوالہ دیا گیا۔ “اگر، ایک صحافی کے طور پر، آپ ان مطلقات کو لکھتے ہیں” ان سے سوال کیے بغیر، وہ کہتی ہیں، “تو آپ مصیبت میں پڑ جائیں گے۔”

ہر دستاویز کی قدر کریں۔

ماہر کا کہنا ہے کہ وہ مختلف بیوروکریٹک عمل کے دوران تیار کی جانے والے ہر قسم کے دستاویزات کو دیکھتی ہیں، بشمول ٹینڈر نوٹس، نوٹیفیکیشنز اور اعلانات، لیکن رپورٹرز کو خبردار کرتی ہیں کہ وہ استعمال کرنے سے پہلے انہیں مکمل طور پر سمجھنے میں احتیاط کریں۔ “مفروضے مت بنائیں،” وہ کہتی ہیں۔

اعظم اپنی کہانیوں میں عدالتی ریکارڈ بھی استعمال کرتے ہیں – کیونکہ یہ اکثر سرکاری ریکارڈ کے مقابلے میں حاصل کرنا آسان ہوتے ہیں۔ کراچی مین پبلک پارک پر قبضے کی سیریز کے لیے، وہ کہتے ہیں کہ وہ خاص طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں۔ “زمین پر قبضے کے خلاف دائر عدالتی مقدمات کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ زیادہ تر کیس فائلوں میں علاقے کے تفصیلی نقشے ہوتے ہیں۔ مزید برآں، سول سوسائٹی اور آزاد این جی اوز سے اس قسم کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے جو عدالتی قانونی چارہ جوئی کے ذریعے زمینوں پر قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

ایک بیٹ تیار پر توجہ دیں۔

ماہر کا کہنا ہے کہ ایک بیٹ پر توجہ دینا اہم ہے۔ “سب کچھ کرنے کی کوشش نہ کریں،” وہ خبردار کرتی ہے۔

اعظم کا کہنا ہے کہ میونسپل “بیٹ” کو انہوں نے اپنے ساتھ باندھ لیا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے نیوز آرگنائزیشنز کو تبدیل کیا تو انہوں نے بیٹ نہیں چھوڑی۔ “میں ایک تفتیشی صحافی کے طور پر اپنے کیریئر کے دوران جس بھی نیوز آؤٹ لیٹ میں شامل ہوا ہوں مقامی حکومتوں کو کور کرتا رہا ہوں،” وہ کہتے ہیں۔

اس سے انہیں نہ صرف گہرے سطح پر مسائل کو سمجھنے میں مدد ملی ہے، بلکہ رہنمائی بھی ملی ہے۔ مقامی حکومتوں کے بارے میں ایک بحث کے دوران، انہیں ایک اشارہ ملا کہ کوڑا پھینکنے کی جگہوں کو شہر کے اندر غیر قانونی طور پر زمین پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا انہوں نے باریک بینی سے دیکھا کہ کس طرح زمین کے ٹکڑوں کو پہلے برابر کیا جاتا ہے — ان پر بعد میں تجاوزات کی جگہ کے طور پر نشان لگایا جاتا ہے — اور پھر اسے کوڑا کرکٹ ڈمپنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اس سے پہلے کہ بالآخر ترقی کے لیے “قبضہ” کیا جائے۔

اعظم کہتے ہیں کہ شہر کی انتظامیہ کے بارے میں چھان بین اور لکھنا بہت ضروری ہے۔ “آخرکار یہ وہی ہے جس کی وجہ سے انسانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے لیکن کوئی ایسی چیز جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر میں، آپ اس بات پر کیسے بات نہیں کرتے کہ اس شہر کو کیسے چلایا جاتا ہے؟


امل غنی جی آئی جے این کی اردو ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے عروج سے لے کر ماحولیات اور ڈیجیٹل حقوق تک ہر چیز پر رپورٹ کیا پے۔ وہ فلبرائٹ فیلو ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، جہاں انہوں نے تحقیقاتی صحافت میں مہارت حاصل کی ہے۔

ایاز خان پاکستان میں مقیم ایک محقق اور صحافی ہیں۔ وہ موسمیاتی تبدیلیوں پر رپورٹ کرتے رہے ہیں اور آکسفورڈ کلائمیٹ جرنلزم نیٹ ورک (OCJN) کا حصہ بھی ہیں، جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف جرنلزم کا ایک پروگرام ہے۔ انہوں نے ڈان اور دیگر آؤٹ لیٹس کے لیے کام بھی کیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *