باب 3: خلیجی عرب ممالک میں ہجرت کیے مذدوروں پر رپورٹنگ رپورٹنگ کے زاتی اکاونٹ

Print More
Gulf Guide Censorship

Illustration: Marcelle Louw for GIJN

خلیجی ممالک میں کم ہی غیر جانبدار اور مقامی رجسٹرڈ میڈیا آوٹلٹس ہیں اور زیادہ تر رپورٹنگ یا تو وہ کرتے ہیں جو اس علاقے میں رہتے ہوئے باہر کے میڈیا کے لئیے کام کرتے ہیں یا پھر وہ جو اس علاقے میں رپورٹنگ کے لیئے آتے ہیں۔ دونوں ہی گروپوں کو معلومات تک رسائی اور سیکورٹی کے لئیے کچھ رکاوٹیں کا سامنا ہوتا ہے۔ مندرجہ زیل ۵ رپورٹروں کے ٹیسٹیمونیل ہیں جو خلیجی ممالک میں کام کرنے کے تجربے پر روشنی ڈالتے ہیں جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جبری مزدوری پر  اندر سے اور دور سے لکھنے کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ 

سیاسی رکاوٹوں کے گرد کام کرنا

سیباسشین کاسٹیلئیرایک فریلانس صحافی ہیں جو کے کئی مشرق وسطی اور بین الاقوامی اشاعت کے لئیے جی سی سی کی معیشت پر رپورٹنگ کرتے ہیں، ان کا کام کئی زبانوں میں شائع ہوا ہے۔ 

“کووڈ کے تباہ کن اثرات سے متاثر ہ ہجرت کرنے والے مذدوروں پر بحران پر رپورٹنگ کرنا چیلنجنگ ہے۔ عرب خلیجی علاقے میں زیادہ ترملکوں نے اپنے بارڈر مہینوں بند رکھے تھے اور ہر طرح کی آمد ورفت پر پابندی لگا دی تھی۔ ایسی صورتحال میں فیلڈ رپورٹنگ کرنا انتہائی دشوار ہوگیا تھا جس سے زیادہ تر صحافیوں کو فون اور وڈیو انٹرویو پر بھروسہ کرنا پڑا”

“جہاں اس علاقے میں مہاجر مذدوروں تک رسائی مشکل ہے، وہیں ان کو درپیش مسائل کی شدت کی وجہ سے مذدوروں نے خود ہی سوشل میڈیا پر صحافیوں سے رابطہ شروع کیا، یا تو مدد مناگنے کے لیے یا پھر اپنی ذاتی کہانی بتانے کے لیے۔ لیکن موجودہ سیاسی تناظر اور متحدہ عرب امارات/سعودی محور اور امارات قطر کے درمیان 2017 سے جاری معلوماتی جنگ کے پیش نظر، موصول ہونے والی گواہی کو محتاط تصدیق کی ضرورت ہے۔  اس میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کے زیادہ تر نجی کمپنیاں کسی بھی غلط کام کرنے کے الزام کو تسلیم نہیں کرتیں اور ورکروں کی جانب سے کہی گئی باتوں پر سوال اٹھاتی ہیں۔ ہجرت کرنے والے مذدوروں کی حالت زار کو خلیجی ممالک میں سیاسی بنا دیا گیا ہے۔” 

گراوؐنڈ پر رہ کر رپورٹنگ کرنے کے متبادل طریقے

پیٹ پیٹیسن گارڈین یو کے کے لئیے باقائدہ طور پر جبری مزدوری اور انسانی حقوق پر رپورٹ کرتے ہیں۔ 

“ہجرت کرنے والے مذدوروں پررپورٹنگ اچھے وقتوں میں بھی کافی دشوار ہوتی ہے لیکن کووڈ نے اس کو مزید مشکل اور اہم بنا دیا ہے۔ گراونڈ پررہ کر رپورٹنگ کا کوئی متبادل نہیں لیکن کورونا وائرس نے اس کو ناممکن نہیں تو بہت دشوار کردیا ہے۔ تو پھر کیا متبادل ہے؟

ایک طریقہ یہ ہے کہ ہجرت کرنے والوں کی کمیونٹی اپنے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے آپ فون اورآنلائن انٹرویو کا بندوبست کریں۔ اگر آپ اس علاقے میں عرصے سے کام کررہے ہیں تو پھر آپ کے پاس ایسے رابطے ہوں گے جن کو استعمال کرسکیں۔ اگر نہیں ہیں تو اس علاقے میں مائگرینٹ رائٹس ڈاٹ آرگ جیسی تنظیموں سے رابطہ کریں۔ آپ ورکروں سے براہ راست سوشل میڈیا پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں لیکن یہ اپنی مشکلات کے ساتھ آتا ہے ۔ آپ کیسے اجنبی لوگوں کو اپنے اوپر بھروسہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں خاص کر کے دنیا کے ایسے علاقے میں جہاں پر آواز اٹھانا خطرناک ہوتا ہے۔ اور آپ ان پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں اور انکی بتائی ہوئی معلومات کی کیسے تصدیق کریں گے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے بات کریں۔ جب آپ یہ کرتے ہیں تو اہم مسائل سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ خلیجی ممالک کے حالیہ صورتحال پر بات کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو حال ہی میں وطن آئے ورکر ہوتے ہیں ان سے بات کی جائے۔ ان تک رسائی شائد آسان ہو اور وہ بات کرے کے لئیے آسانی سے رضامند بھی ہوجاتے ہیں۔”

ذرائع کو محفوظ کرنا، بطور عورت رپورٹ کرنا

رابیہ جعفری خلیج میں موجود فریلانس صحافی ہیں۔

خلیجی ممالک میں جبری مزدوری پر رپورٹنگ کرنے میں خاص کر کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سب سے عام چیلنج جو مجھے ہوا ہے وہ معتبر رپورٹنگ کرنا ہے جو کہ ذرائع کے شناخت کو محفوظ رکھ سکے۔ زیادہ تر لوگ جن سے میں بات کرتی ہوں وہ اپنی شناخت ظاہر کرنے میں آن دا ریکارڈ بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں کینوکہ انکو قانونی چارہ جوئی کا خطرہ ہوتا ہے۔ کچھ اشاعت جو اس علاقے کی سمجھ رکھتے ہیں باخوشی ذرائع کی شناخت چھپا لیتے ہیں لیکن میں کچھ ایسی بڑی بین الاقوامی اشاعت کو بھی جانتی ہوں جو یہ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس ہی وجہ سے مجھے اپنی کچھ اسٹوریز ختم کرنی پڑیں کیونکہ مجھے معلوم تھا کے شناخت بتانے سے میرے ذرائع کو خطرہ پہنچ سکتا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ، عورت ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کافی جگہیں جیسے کے تعمیراتی سائٹس، مردوں کی رہائشگاہیں اور کچھ دفاتر تک میری رسائی نہیں ہوسکتی خاص کر کے سعودی عرب میں اور ایسی صورت حال میں مجھے مرد فکسر کی مدد لینی پڑتی ہے۔ اس کے متبادل، بطور عورت مجھے ایسی جگہوں تک رسائی مل جاتی ہے جو مردوں کو نہیں ملتی تو میرا خیال ہے یہ متوازن ہے جو برقرار ہو جاتا ہے۔

اخلاقی طور پر، میں ایسی سٹوریز پر رپورٹ کرنے سے اسٹرگل کرتی ہوں جن کے بارے میں مجھے معلوم ہوتا ہے اور وہ اہم بھی ہوتی ہیں لیکن کرپٹ ادارے جن کی ہم بات کررہے ہیں وہ گورمنٹ خود ہوتی ہے اور میں اکثر سٹوری کو نظر انداز کرتی ہوں  کینونکہ مجھے معلوم ہوتا ہے اس کو رپورٹ کرنے سے میں مشکل میں پڑ سکتی ہوں۔

ایک جھوٹے نظریے کو پس بیک کرنا

ریجیمون کتاپن دا لیڈ کے خصوصی نامہ نگار ہیں۔  وہ ہجرت پربڑے پیمانے پر مختلف اشاعت کے لئیے علاقے میں اور بھارت میں لکھتے ہیں ۔  وہ اس سے پہلے اومان میں رہتے اور کام کرتے تھے جہاں پر ان پر ہجرت کرنے والوں پر رپورٹنگ کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

ہجرت کرنے والوں پرعرب خلیج میں پینڈمک کے دوران رپورتنگ کرنا میرے ایک دہائی کے صحافتی کیرئیر کے لئیے ایک چیلنج رہا۔  کووڈ اوراس سے ہونے والا معاشی بحران نے ہجرت کرنے والے ورکروں کو صدی کی انتہائی مشکل حالات میں ڈالا۔

“میں نے مارچ سے جولائی 2020 کے درمیان 40 سٹوریز کوور کیں ایسے ہجرت کرنے والے ورکروں کی جو کے پریشانی کا شکار ہیں۔ میں جب سٹوریز لکھ بھی رہا تھا، تو اس وقت اس مشکل میں تھا کہ میں متوازن رپورٹیں کیسے لکھوں کیونکہ ان کے مالکان، میزبان ممالک، بھیجنے والے ممالک اورعالمی واچ ڈاگ گروپ مجھ سے بات کرنے میں ہچکچا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان سٹوریز کو بروقت بتانے کا زیادہ دباو بھی تھا۔ زیادہ تر سٹیلک ہولڈر “سب کچھ ٹھیک” ہے کا تعصب دینا چاہتے تھے۔ اگر وہ اس میں ناکام بھی تھے تو میڈیا پر رسائی اور کھلی بات نہیں کررہے تھے۔”

“بھارت میں لوگ یا تومکمل تصویر نہیں دیکھ پارہے تھے، یا خود سے نظر انداز کررہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ میں صورتحال کو بڑھا چڑھا کے بیان کررہا ہوں۔ مجھے فون، ای میل اور سوشل میڈیا پر دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس سچ کو بے نقاب کرنے میں۔ کچھ نے تو یہ بھی الزام لگایا کہ میں بھارت اور عرب خلیجی ممالک کے اچھے تعلقات کو غیر مستحکم کرنا چاہ رہا ہوں اور یہ کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں جبکہ میرے پاس آن دا ریکارڈ باتیں تھیں۔” 

معلومات کے کریک ڈاوؐن کے درمیاں محفوظ کرنا

خلیجی ممالک میں موجود وائر سروس سے منسلک ایک گمنام صحافی، جن کو گوورمنٹ کے طرف سے ایکشن کا  ڈر ہے اگر ان کا نام لے لیا گیا۔ 

“پہلے تو کووڈ کی وجہ سے معلومات کی رسائی میں بہت دشواری تھی، لیکن پھر کچھ شفٹ ہوا اور خلیجی ممالک کو اپنا پیغام سرعام کرنا تھا تو اور چیزیں کھلیں اور رسائی بڑھی۔ اس سے پہلے، جی سی سی کے صحت افسران کی پریس کانفرنسز بین الاقوامی میڈیا کے لئے بند تھیں، یہ ایک عام سی بات ہے دیگر موضوعات کو کوور کرنے کے لئیے بھی اور صرف مقامی پریس کو بلایا گیا تھا۔ لیکن جیسے ہی کیسز بڑھے سارے ہی میڈیا پر حفاظتی اقدامات کے لئیے پر پریس کانفرنس کے لئیر پابندی لگا دی گئی۔

معلومات کے کریک ڈاون کے باعث، خلیجی گوورمنٹون نے اور رابطہ عامہ کی تقریبات کیں (جیسے کے دیگر ممالک میں طبی امدار کا بھیجنا، فیلڈ ہسپتالوں میں جانا، وینٹیلیٹر کی فیکٹریاں وغیرہ۔ پر) لیکن، یہ ان سٹیج ہوئے لمحات نے پریس کو ایسے تناظر اور تصاویر فراہم کیں جو کے ہمارے استعمال کی تھیں اور روز مرہ کے اعداد و شمار کے علاوہ معلومات تھی۔  

کووڈ نے دیگر موضوعات کی کووریج پر بھی اثر کیا اور انکو کوور کرنا مشکل بنایا۔ بغیر کسی تقریبات یا پریس کانفرنس اور پابندیوں کے باعث  لوگوں سے براہ راست میٹنگ نہ ہونے پر یہ جاننا بہت مشکل ہو گیا تھا کہ گراوندڈ پر دراصل کیا ہورہا ہے اور ڈیجٹل یا ایلکٹرانک میڈیا کے ساتھ اپنے رابطوں اور ذرائع پر اعتماد کرنا پڑ رہا تھا۔” 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *