جب فلم ڈائریکٹر اینڈریو نیکول نے 2005 کی فلم “لارڈ آف دا وار” کے لئیے پراپس خریدنے شروع کئیے تو انہوں نے ایک مہنگا سبق سیکھا۔ نقلی اسلحے کے مقابلے میں اصلی اسلحہ خریدنا سستا تھا ۔ تو انہوں نے فلم کے پریس ٹور میں بتایا کہ انہوں نے 3000 کلاشنکو رائفلیں خریدیں اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی ٹینک بھی لیز پر لئیے۔ حالانکہ انہوں نے بعد میں یہ ہتھیار جنوبی افریقہ میں دوبارہ استعمال ہونے سے روکنے کے لئیے تباہ کردئیے تھے، بجٹ کی ڈیمانڈ نے کچھ ہتیار انکو خسارے میں بیچنے پر مجبور کیا، جس سے انکو اس کی لاگت سے آدھا کرنا پڑا کیونکہ مارکٹ ہتھیاروں سے بھری پڑی تھی۔
روس کے ہتھیاروں کی ڈیلر وکٹر باوٹ کی حقیقی زندگی سے ملتی جلتی، “لارڈ آف دا وار” فلم گن پاوڈر سے گولی تک کا سفر دکھاتی ہے۔ اس کے خطرات اور کشش کے کیسے وہ دھات کے کیس میں رکھا جا تا ہے اور کنویئربیلٹ سے کریٹ تک جاتا ہے۔ کریٹ اور قتل عام کے درمیان، جیسے ہی ہتھیاروں کو دنیا بھر میں گارڈن ورائٹی کی ملٹری، دہشتگرد اور جنگجو وارلارڈ کو بھیجے جاتے ہیں، یہ فلم لائبیریا کی آمرچارلس ٹیلر بحیثیت خریدار اور باوؐٹ کو سپلائیر کے طور پر دیکھاتی ہے، گوورمنٹ، لابیسٹ، ہتھیار ڈیلروں، ایٹیلیجنس، ایجنٹ، کیرئیر، فاینینسر کے درمیان پیچیدہ اور غیر شفاف انٹرپلے کو منظر عام پر لاتا ہے۔
باوٹ اور ٹیلر کے زوال کے بعد، جہاں پر باوٹ کو سٹنگ آپریشن کے 25 سال سزا سنائی گئی تھی اور ٹیلر کو دا ہیگ کے جنگی جرم ٹریبیونل کے تحت 50 سال، دنیا کے فوجی اخراجات 2020 میں 2 کھرب ڈالر تک تجاوز کر گئے تھے۔ اس پر خرچہ کرنے والے 4 ممالک ۔ امریکہ، چین، روس اور برطانیہ ۔ دنیا کے بڑے سپلائیر بھی ہیں۔ اسلحے کی عالمی مارکٹ کاروباری اور مالی تبادلوں کی ساتھ انٹرلاک ہوتی ہے جس میں کاروباری ماڈل وہی ہوتا ہے جس سے بین الاقوامی منظم جرائم، وار پرافٹیرینگ، آمرانہ اور تنازعہ پر مبنی معیشیت چلتی ہے۔
یہ اس لئیے ہے کہ کینوکہ قومی قانون جو اسلحے کو دیکھتے ہیں آپس میں متضاد، اور ناہموار ہوتے ہیں اور کرپٹ قیادت کے اثر رسوخ میں ہوتے ہیں جس میں لوپہول ہوتے ہیں۔ دیگر رکاوٹیں جو اس کو بے نقاب کرنے سے روکتی ہیں۔ اس میں سمندری اور ہوائی راز جس سے ہتھیار ٹرانسپورٹ ہوتے ہیں، کارپوریٹ ادارے جو ڈیلر اور آپریٹر کو چھپاتے ہیں اور پڑوسی ممالک جو ٹرانسپورٹ کے چینل فراہم کرتے ہیں اور لین دین کا بارٹرسسٹم جس سے آیئوری جیسی اشیا کا تبادلہ ہوتا ہے ،وغیرہ شامل ہیں۔
تو جب تک سارے دستاویزات ترتیب میں ہیں، سمگل ہوئی اشیا دن دہاڑے ٹرانسپورٹ ہوسکتی اس وقت تک جب اگر کسٹم، اور دیگر سرکاری ادارے کے پاس سرچ اور پکڑنے کا ثبوت نہ ہو۔ جیسے کہ جنوبی افریہ میں بیٹھے ایک نجی ائیرپورٹ کے افسر نے مجھ سے کہا: “ہم نہ کچھ کماتے ہیں نہ ہمارے پاس کچھ ہوتا ہے۔ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم طاقتور دشمن بنائیں یا ان کا سامنا کریں۔
منشیات اور انسانی سمگلنگ جو کہ ہر جگہ منع ہے، اس کے بر عکس مالیاتی رازداری، اسلحہ اور اکثر ماحاولیاتی جرائم جیسے کہ ٹمبر اور جنگلی حیات کی سمگلنگ اکثر ٹریک ہوئے بغیر ہو جاتی ہے۔ ان سب کا دارومدار ہر ایک دائرہ کار کی رازداری اور ان کے قانونی، مالیاتی اور ٹرانسپورٹ سسٹم پر ہوتا ہے ۔
مثال کے طور پرباوؐٹ کی قید سے اسلحے کی سپلائی کا نیٹورک نہیں رکا۔ وہ اسلحہ کی سپلائی سوڈان سے شام بزریعہ جنوبی افریقہ اور روسی ہدایتکار، ماریشین فرنٹ کمپنیان اورفراہم کرتے رہےاور جعلی دستاویز سے ہتھیار پر چلنے والے جہاز خریدتے رہے۔ ان میں سے کئی کمپنیاں ابھی بھی ماریشیس میں آپریٹ کرہی ہیں جہاں پر وہ “پرائیوٹ جیٹ” پر گھمنڈ کرتے ہیں۔
کمرشل ائیرکرافٹ بین القوامی فضائی حدود میں اپنے ٹرانسپونڈر کو بند کرتے ہیں جس سے ٹریفک کنٹرولر کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن باوؐٹ کی جہازوں کی فلیٹ خاص کر کے وہ پرانے ماڈل جس میں جی پی ایس سسٹم نہیں ہیں، انکو کوئی نہیں دیکھ سکتا اور ملکوں کے اندراور درمیاں بغیر پتہ لگے باآسانی گھوم سکتے ہیں۔ ماریشس کی گورمنٹ نے اس وقت میڈیا بیانات کے علاوہ اس بارے میں کچھ غلط ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کہا تھا۔
جو گورمنٹ کی طرف سے اسلحہ بیچنے اور سبسڈی دینے والی انڈسٹریوں کو حفاظت ملتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ان ٹیکس ہیون کی بدولت جو ان لوگوں کو اپنا کام آوؐٹ سورس کرنے میں مدد دیتی ہے ان سب اقدامات کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں عوامی سطح پر معلومات کی رسائی پر مکمل بلیک آوؐٹ ہوتا ہے۔
تفتیشی صحافی پہلے ہوتے ہیں جو غیر اسلحہ سے متعلق قانونی، اور کرپٹ حرکات کی شناخت کرلیتے ہیں جو کہے اکثر آنے والا یہ چلنے والے قدرتی وسائل تصادم، منظم جرائم، بدعنوانی اور استحصال سے جڑا ہوتا ہے۔
عالمی سکوپ
کیلے اور سویا کی انڈسٹری کے مقابلے میں اسلحے کی انڈسٹری بین الاقوامی طور پر کم پابندیاں اور قانون نافز ہوتے ہیں جس سے ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ اس سیکٹر میں کم سے کم 40 فیصد عالمی کرپشن ہوتی ہے۔
صرف 10 ممالک دنیا کی 90 فیصد اسلحہ کی سپلائی کرتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں، تقریبا 40 فیصد دستاویز پر ہوئی عالمی سپلائی امریکہ سے آتی رہی ہے۔ اس کی آدھی برآمد مشرق وسطی جاتی رہی ہے جہاں پر سعودی سب دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے۔
سفارتی تعلق اور دباوؐ ریاستوں کو سالانہ اسلحہ درآمد اور برآمد رپورٹ پر آمادہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی آرمس ٹریڈ ٹریٹی نے ایک کثیرالجہتی فریمورک تشکیل دیا ہے جس سے اسلحہ کا استعمال، تصادم، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دہشت گردی ہے۔ لیکن جہاں پر اس معاہدہ پر 100 سے ذائد ملکوں نے دستخط کیا ہے، بڑے اسلحہ برآمد ممالک جیسے کہ روس امریکہ نے دستخط نہیں کئیے اور چین جیسے ممالک جو معاہرے میں ہیں اپنی سالانہ رپورٹ نہیں دیتے۔
یہ پریکٹس بجائے اس کے کہ وہ تصدیق شدہ ڈیٹا کو استعمال کر کے اکھٹا کرے، ایک فہرست کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس کو عوام، غیر ملکی حکومتیں تصدیق نہیں کرسکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ ممالک جو اسلحے کے کاروبار کو رپورٹ کرتے ہیں، ایک طاقتور پیٹرن یا سیاستدان غیر قانونی حرکات کرتے ہوئے قانونی فریم ورک میں مدد کرسکتے ہیں۔ اور وہ ممالک جو اسلحے کے کاروبار کو ریگیولیٹ کرتے بھی ہیں انکے ہاں غیر قانونی حرکات کی وضاحتیں غیر شفاف اور متضاد ہوتی ہیں۔
مشکل سے پکڑنے والی غلطیاں جو قانونی طور پرجائز لین دین میں ہوتی ہیں ان میں معاہدے اور شپمنٹ میں لکھی جانے والی سے زیادہ اشیا زیادہ ہوتی ہیں، سالانہ رپورٹنگ میں غیر تسلسل، اور وہ ممالک جو اسلحہ کو الگ قسم کی کیٹگری میں رکھتے ہیں یہ سب شامل ہیں۔ اس سے اسلحہ کی پیداوار، پھیلاوؑ اور جوازاور اس کے ساتھ ساتھ قرضہ، بارٹر ٹریڈ اور ٹریڈ آف کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
تو پھر عوامی ڈیٹا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کیسے اپنی تفتیش کو زیداہ کھودسکتے ہیں اور ٖتم ہونے سے بچاسکتے ہیں؟
ایک پرائیوٹ افئیر
جب تک کے ملکوں پر تجارتی پابندی نہ لگی ہو ملکوں کے درمیان اسلحے کا لین دین ایک نجی افیئر ہوتا ہے اور اس میں چیک اور بیلنس کے لئیے کم ہی کچھ آڑے آتا ہے۔ لیکن اپنی رپورٹنگ شروع کرنے کے لئیے، اسلحے کی ڈیل کا بنیادی عمل سمجھنا ضروری ہے۔
۱۔ درآمد کرنے والا ملک زیادہ ترٹینڈرکا اشتہار لگاتا ہے یا پھر نجی سپلائیر کو دے دیتا ہےیا پھر وہ لینے کے آخر میں ہوتا ہے جہاں پر باہر کی کمپنیاں اور گورمنٹ لابینگ کے زریعے ملکوں کو بیچنے کے لئیے دے رہی ہوتی ہیں۔
۲۔ اس کے بعد برآمد کرنے والا ملک درآمد کرنے والوں کو اسلحے کے ساتھ ساتھ اس کی سروس اور ٹیکنالوجیکل سسٹم کی بین القوامی سیل کی اتھارٹی دیتا ہے ۔ ہر ملک کا اپنا ڈومیسٹک طریقہ کار ہوتا ہے جس سے اجازت ملتی ہے۔
۳۔ اسلحے کو بنانے والی اور بیچنے والی نجی کمپنیاں یا پھر حکومت کی ملکیت یا کنٹرول ہوئے ادارے۔
۴۔ نوٹ: درآمد کرنے والا ملک ملنے والا اسلحے کو یا تو منینفیکچر یا پھر بیچ دیتا ہے، برائے غیر ملکی ملٹری سیل یا پھربرآمد کرنے والے ملک کے نجی ڈیفینس سیکٹر کے ذریعے جس کو :کمرشل ڈیل” کہتے ہیں۔
۵۔ اپنی قومی سیکورٹی کی حفاظت کے لئیے اور اپنی جیوپالیٹیکل اتحاد کو فروغ دینے کے لئیے دیادہ تربرآمدی ممالک سبسڈی دیتے ہیں اورنجی ڈیفینس سیکٹر کی حفاظت کرتے ہیں جس سے ۔ اینڈ یوزرسرٹیفیکٹ، ایک بنیادی پیپرورک جس کو درآمدی ملک دستخط کرتا ہے، خریدے جانے والے آئٹم کی تصدیق کرتا ہے اور یہ درج کرتا ہے کہ یہ اسلحہ صرف مخصوص مقصد کے لئیے استعمال ہوگا جیسے کے “تربیت، انسداد دہشتگردی، سیکورٹی اور استعحکام آپریشنز کے لئیے۔” اینڈ یوزر سرٹیفیتکٹ کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ انکا استعمال ظلم اورانسانی حقوق کی پامالی میں نہ ہواور نہ ہی انکو ناپسندیدہ ریاستوں یا بدمعاش اداروں کو دوبارہ بیچا یا تحفے کے طور پر دیا جائے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اسلحہ، خاص کرکے چھوٹے ہتھیار، ایک خریدار سے دوسرے تک پہنچ جاتا ہے۔ مثال کے طور پراقوام متحدہ کی لبیبیا میں اسلحے کی پابندی سے اسلحے کے بہاوؐ کو فرق نہیں پڑا۔ جعلی فلیگ، کارپورٹ خفیہ پنا اور بہاماز، لایئبیریا اور مارشل آئلینڈ جیسے ٹیکس ہیون کے ذریعے شپنگ نے اس ملک کو اجازت دی کہ وہ پابندی کے باوجود غیرقانونی اور پابندی شدہ سپلائی درآمد ہو۔ شیل کمپنیوں نے لیبیا کی مدد کی ہے کہ وہ متحدہ ارب امارات اور روس کی نجی سیکورٹی کمپنیوں سے ملٹری گاڑیاں، اسلحہ، اور بم لے سکے۔
ممالک ہمیشہ نقد پیسے نہیں دیتے۔ ٹریڈ پر مبنی فائنینسنگ ہمیشہ کردار ادا کرتی ہے۔
سوڈان سے سونا ہمیشہ جبل عامر، جو کہ افریقہ میں تصادم زدہ درفر کی سب سے بڑی سونے کی کان کے زریعے متحدہ عرب اماراے بھیجا جاتا تھا۔ اس کےبدلے میں شیل کمپنیاں جو کی خلیجی ملک میں رجسٹر تھیں انکو اسلحے سے تیار فوجی کیرئیر اور دیگر اشیا ملتی تھیں۔
اسلحے کی سمگلنگ کی تفتیش یہ ظاہر کرتی ہے کہ، اسلحے کی آسان رسائی نہ صرف منظم جرائم، آمرانہ سلوک اور تصادم کو مدد دیتی ہے بلکہ اسکو فروغ دیتی ہے۔ 2020 میں جب کووڈ نے معیشتوں کو تباہ کیا اورنقد پیسے کی کمی سے دوچار گورمنٹ تشکیل کیں، سعودی ارب اور اقوام متحدہ کے دباوؐ کی وجہ سے جنہوبی افریقہ نے اینڈ یوزر سرٹیفیکٹ کے پروٹوکل میں نرمی کی۔ بجائے اسکے کہ اسلحے کے انسپیکٹر ٹرانسفر ہونے والے اسلحہ کی قانونی حیثیت کی جانچ پڑتال کرتے ڈیل اب کم سخت سفارتی طریقہ کار سے گزر رہی تھی۔
اس سب کے باوجود کافی معلومات موجود ہے جسے تفتیشی رپورٹر جو بین الاقوامی بارڈر شناخت، اور تصدیق کر سکتے ہیں۔ یہ سب اسلحے کے ڈیلر کی بناوٹ اور وہ سسٹم جس سے وہ ڈیل کرتے ہیں انکو ٹریس کر کے ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اسلحے کے ڈیلر وہ پیٹرن یا سلوک توڑ لیں یا پھر اسکو بزید پر اثر یا خفیہ بنا لیں، بطور انسان، وہ آخرمیں نئے پیٹرن ہی بنا رہے ہوتے ہیں۔
کیس اسٹدی
مرچنٹ آف ڈیتھ
روسی خودساختہ کاروباری وکٹر باوؐٹ شاید دنیا کا سب سے بڑا اسمگلر تھا۔ اس کوسے موثر ڈاکیا کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ہرطرح کا کارگو خاص کر کے غیر قانونی ہتھیار پہنچا سکتا تھا۔ اس کی کلائنٹ کی فہرست بھی کافی پیچیدہ تھی۔ اس کی کمپنی جو اکثر نام اور لوکیشن تبدیل کرتی تھی، افغانستان کی نورتھن الائینس کے لیڈر احمد شاہ مسعود کو سپلائی دیتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہتھیار مسعود کے دشمن طالبان کو بھی سپلائی کرتا تھا۔ وہ انگولا کی گورمنٹ کو بیچتا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ ان جنگجوں کو بھی جو حکومت گرانے کے لئیے کام کررہے تھے۔ اس نے ایک طیارہ ، زیر کے آمر موبوتو سیسی سیکو کو بھیجا اور ایک ان جنگجوں کو بھی جو اس سے لڑ رہے تھے۔ اس نے ریولوشنرے آرمڈ فورسس آف کولومبیا (فارک) کے ساتھ کام کیا اور مشہور لبیا کے آمر مومر قزافی کے ساتھ بھی۔
باوؐٹ کو انکی غیر قانونی اسلحہ کے کاروبار کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن وہ قانونی کارگو بھی اڑاتے تھے۔ اس کاروبار میں سیکڑوں اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کی تنظیوموں کی ٹرپ لگتی تھی۔ وہ مغربی حکومتیں جیسے پرطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کاروبار کرتے تھے۔ پینٹاگون اور انکے ٹھیکے دار انکو جنگ کے بعد تعمیری کوششوں کی مدد کے لئیے لاکھوں ڈالردیتے تھے۔
سفارتی لوگوں سے انٹرویو پر باوٹ کی سرگرمیوں کو ٹریک کر کے، باوؐٹ سے ذاتی وابستگی رکھنے والے ، تفتیش کرنے والے ڈگلس فرح اور اسٹیفن براوؐن نے ان کے بارے کتاب لکھی: “مرچنٹ آف ڈیتھ: منی، گنس، پلینس، اینڈ دا مین ہو میکس وار پاسیبل“۔
ایویشن ٹیل کوڈ ٹریکنگ
ایویشن ڈیٹا جس میں ٹیل کوڈ یا جہاز کے رجسٹریشن نمبر شامل ہوتے ہیں بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریپبلک آف کونگو جس کو اکثر کونگو برازویل بھی کہتے ہیں نے پچھلے تین دہائی سے کوئی بھی اسلحی درآمد نہیں کیا اور کیونکہ اس پر کوئی پابندی لاگو نہیں ہے اسکو ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنی کوئی بھی ڈیل اقوام متحدہ جیسی بین الاقوامی باڈی کو ظاہر کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شواہد ملتے ہیں 500 اسلحہ ازر بائیجان سے درآمد کیا گیا تھا جس میں سے زیادہ تر مقدار 2016 اور 2021 کے الیکشن سے پہلے ہوئے تھے۔ ہماری او سی سی آر پی کی تفتیش سے پتا لگتا ہے کہ اس میں سے کافی اسلحہ اختلاف کرنے والوں کے خلاف استعمال ہوا تھا۔ زیادہ تراسلحہ جیسے کے مورٹر شیل، گرینیڈ، اور ہائی پاورڈ مشین گنس یا تو منینیوفیکچڑ ہوئے تھے یا پھرازیری گورمنٹ نے بلگیریا اور سائبیریا سے لئیے تھے۔
دستاویزات یہ دکھاتے ہیں کہ کچھ ڈیلز میں سعودہ عرب بطور “اسپونسرشپ پارٹی” درج تھی۔ اس سپانسرشپ سے یہ پتا چلتا ہے کہ تیل بنانے والا رپبلک آف کانگو سعودی برتری رکھنے والا اوپی ای سی کارٹیل کے ساتھ شامل ہوگیا ہے جو کے دنیا کی 80 فیصد تیل کی سپلائی تنٹرول کرتا ہے۔ دونوں ازر بائیجان اور کانگو رپبلک بطور خاندانی آمرانہ نظام سے چلائی جاتی ہیں جبکہ سعودی عرب میں خاندانی بادشاہت ہے۔ ٹریفک سائن بتاتے ہیں کہ کیسے اسلحہ پہلے ازربائیجان ائیر فورس سے ٹرانسپورٹ پوئی تھے لیکن اس سے پہلے 2018 میں ایک نجی کیرئیر، سلک وے، نے اس اسلحہ کو فلائے کرایا تھا۔ سلک وے، کیونکہ ازر بائیجان کے حکومتی فیملی سے ضرا تھا، کم توجہ حاصلی کرتا بنسبت ملٹری کیرئیر کے۔
نائیجر کا دلال
دنیا کی غریب ترین ملک نائیجر میں 2011 سے 2019 تک تقریبا ایک بلین امریکی ڈالرخرچ کیے گیے تھے، جس میں ۱۳۷ ملین ڈالر کرپٹ افسران کو اسلحہ کی ڈیلز میں دئیے گیے تھے ۔ 2016 میں نائیجرکی ڈیفینس منسٹری نے رویس روزوبورونایکسپورٹ، جو کی ملٹری ہتھیار برآمد کرنے وکی ریاستی تنظیم ہے، اس سے دو ملٹری ٹرانسپورٹ اور حملہ آور ہتھیار خریدے تھے۔ یہ خریداری جس میں مینٹیننس اور امیونیشن کی بھاری رقم موجود تھی ، نایئجر کو 8-54 ملین ڈالر کی قیمت پڑی جو کہ 7-19 میلین ڈالر کی زیادہ رقم تھی جس کو نہ آئٹمائز کیا گیا اور نہ ہی اس کا کوئی جواز پیش گیا جا سکا۔۔ روسی گورمنٹ کو اکی رقم وی ٹی بی برانچ کے ذریعے ملی، جس کو روسی گورمنٹ کی اکژری ملکیت میں شمار ہوتا ہے۔
وزارت دفاع نے ابوکا ہیما نامی ایک ہی دلال کو نائیجر کے بدولت اٹارنی کا اختیار دیا جس سے وہ معاہدوں کو اپنی شیل کمپنیوں کی طرف لے جاسکتا تھا اور ڈیلز کے ساتھ ایسی ہیرا بھیری کر سکتا تھا جس سے وہ قانون اور کمیوٹیوں کو بائے پاس کرسکتا تھا۔ اس نے روسی، یوکرینین اور چایئنیز کمپنیوں ساتھ بھی ڈیلز کریں جس سے وہ ساری پارٹیز کی معلومات کو کنٹرول کرسکتا تھا۔ اس وقت ہیما کی ایک اورجنیوبی افرہقن ملک نائیجیریا ڈھونڈرہا تھا جس کا وہ شہری تھا اور جس کے لئیے اس نے امریکن عدالت میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا جرم بھی مان لیا تھا۔
عدالتی دستاویزات، مارکٹنگ پروشر اور کمپنی کی ویبسایئٹ بھی اسلحہ کی سیل کی قیمت کی معلومات فراہم کرتی ہے۔ ڈومین کے ناموں کی آئی پی اڈریس بھی اس کے بارے میں قیمتہ اشارات دے سکتی تھی۔
ٹپس اور ٹولز
دیگر اشیا کی طرح ، اسلحہ کا بھی آرڈر جاتا ہے جہاں پر اس کی منیوفیکچرنگ ہوتی ہے، دستاویز بنتے ہیں او، خرید کر پھر بیچا جاتا ہے اور پھر بھیجنے والے سے لینے والے تل ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے لئیے مندرجہ زیل کو سرچ کریں
آرمس رجسٹری: 1991 میں اقوام متحدہ کا رجسٹر آف کنونشنل آرمس (یواین آر او سی اے) تشکیل کیا گیا تھا جس میں ملکون کے درمیان اسلحہ کا سرکاری کاروبار خود ساختہ طور پر شئیر کیا جاتا تھا۔ اس کو عوامی رسائی ہوتی ہے اور گوورمنٹ کی خفیہ سرگرمیاں بے نقاب کرسکتی ہیں اگر وہ سیل کی معلوما رپورٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اس رجسٹری میں جھوٹے ہتھیار جیسے بھاری مشین گن اور راکٹ لانچراور اس کے ساتھ ساتھ بھاری نفری کی گاڑیاں جیسے جنگی ہیلی کاپٹر، اور لانگ رینج کے میزائل شامل ہوتے ہیں۔ اس ہی کی طرح کی ایک اورمعلوماتی ریسورس اسٹاکہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیتیوٹ (ای آئی پہ آر آئی) ہے جس میں ملکوں کی رپورٹ، ملٹری خرچوں کا ڈیٹا ، اسلحہ کا تبادلہ، اسلحہ پر پابندیاں، اور یہاں تک کے ملکوں کے آپس میں فوجی مدد کو ٹریک کرتا ہے۔
ٹرانسپورٹ ریکارڈ: ایویشن کے ریکارڈ جیسے فلایئٹ رڈار 24 اور فلائیٹ اویر ہوائی جہازوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے جیسے جے ٹیل کود، رجسٹریشن کا ملک، اور حالیہ سرگرمی بھی۔ اس کے علاوہ ریڈیت آر ایویشن اور ائیرلائنر ڈاٹ نیٹ جیسے فورم پائلٹ اور تکنیکی کریو کی جانب سے دیکھی گئی منفرد معلومات فراہم کرتی ہے۔ جی آئی جے این کی پلین سپاٹنگ گائیڈ اور سی 14 ے ڈی ایس کا اکارس فلائیٹ ٹریکنگ پلیٹفارم بھی دیکھ لیں۔ میریٹائم شپنگ کے لئیے، جی آئی جے این کی ٹریکنگ شپس ایٹ سی سے شروعات کریں اور راستوں، اشیا، بھیجنے والوں اور لینے والوں، تاریخوں اور پتوں کے لئیے مرین ٹریفک، امپورٹ جینیس، اور پنجیوا جیسے ڈیٹا سیٹ پر جائیں۔ ہوائی جہازوں کی طرح شپ بھی ملکوں میں یا تو حکومت یا کسی کمپنی یا فرد کے نام سے رجسٹر ہوتی ہیں۔ شپنگ میں خطرے کے اشارے میں ایسے ٹیکس کے دائرہ کار ہوتی ہیں جو میریٹائم اور خفیہ اویشین میں مہارت رکھتے ہیں جیسے کہ مارشل آئلیڈ، برموڈا اورلائئبیریا ہیں جنہوں نے ان رجسٹری کمرشالائیز کررکھا ہے اور انکو قانونی حفاظت بھی دیتا ہے۔
کارپوریٹ سٹرکچر: ڈیٹا بیس کے ذریعے ملکیت اور کمپنی کی مینیجمنٹ جاننے کے ساتھ ساتھ اس کے ایکٹر کی قانونی اور مالی سوپر اسٹرکچر بھی دیکھئیے۔ اس میں کمپنی کا مقصد، آپرین کے ممالکت، لنک اور ساتھ وابسطہ ہونے والی کمپنیاں اور کام کی سرگرمیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں ئی بھی ضروری ہے کہ منافع اورمالیت کی شروعات کو میچ کر کے دیکھیں کہ کونسے ٹیکس، نقصانات اور منافع کہاں ریکارڈ ہورہے ہیں اور اس میں کمپنی کی مالیت کا انفراسٹرکچر کیسا ہےاور کوئی ایسی قانونی چارہ جوئی تو نہیں ہورہی جس سے قانونی ڈیسکووری تو فورس نہیں ہورہی۔ اس کے لئیے ضروری ہے کہ عدالتتی اور ٹیکس ریکارڈ دیکھیں جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ قانون دائرہ کارہ میں اس کے خاص فائدوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لیکن شاید سب سے بہترین ٹول جو صحافی لگا سکتے ہیں وہ یہ جاننے کی خواہش کے آخر اسلحہ ہماری گرد ہونے والی نا انصافیوں کا مرکز کیوں ہے۔ ہتھیاروں تک کی رسارئی ریپبلک آف کونگو، گابون اور ایکوٹورئل گینیا جیسے ممالک میں آمریت رکھنے میں مدد دی رہا ہے۔ ہتھیاروں کی رسائی منظم جرائم پیشہ کارٹیل کو بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ جمہوریت کو کمزور کر کے سماج کو منشیات، حیوانی حیات اور انسانی اسمگلنگ کا ہرغمال بنائے رکھے۔ اس وقت تک جب تک یہ لنکس تصوری انداز کے بجائے ٹھوس ثبوت کے ساتھ شفاف اورجارحانہ انداز میں نہیں بنائے جاتے ہم اس وقت تک اسلحہ کو عالمی کرنسی کے بجائے سائیلو میں ہی دیکھتے رہیں جو کہ ہمارے سیارے کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔
________________________________________________
شمولیت اختیار کی اور اس وقت افریقہ کے لیے سینئر ایڈیٹر ہیں۔ وہ پلیٹ فارم فار دی پروٹیکشن آف وِسل بلورز کی سابقہ ڈائریکٹر ہیں اور انہوں نے مڈغاسکر میں غیر قانونی لاگنگ، انگولا میں بدعنوانی اور کوٹ ڈی آئیور میں اسلحے کی اسمگلنگ کو ہوا دینے والے اجناس کے تاجروں کے بارے میں تحقیقات میں تعاون کیا ہے۔ وہ صحافت میں 2021 کی ییل پوئنٹر فیلو ہیں۔