انسانوں کی سمگلنگ دنیا بھرمیں ایک مسلسل اور وسیع پیمانے میں موجود جرائم میں شمار ہوتا ہے اور صحافیوں کی تفتیش کے لئیے ایک تنقیدی اور اثر بخش حیثیت رکھتا ہے۔ اکثر اوقات جدید غلامی ایک ایسی برائی ہوتی ہے جو ہماری نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود پوشیدہ ہوتی ہے یا تو محلے کے مالش پرلر کے انداز میں یا پھر ایل لوکل ڈاک میں ٹھہری مچھلی پکرڑنے والی کشتی کی شکل میں ۔ انسانی سمگلنگ کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: جنسی استحصال، جو کی انسانی سمگلنگ کا تقریبا آدھا حصہ ہے اور دوسرا مزدوروں کے ساتھ زیادتی۔ اقوام متحدہ کے ڈیٹا کے مطابق، تقریا 400 لاکھ لوگ جدید غلامی کا شکار ہیں جس میں زیادہ تر عورتیں شامل ہیں لیکن مرد اور بچے بھی ہیں۔ انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے مطابق، مجرم جن کو اسمگلراورغلاموں کا ماسٹر کہا جاتا ہے کچھ 150 ارب ڈالر منافع میں اکھٹا کرتے ہیں۔
انسانی سمگلنک کی تفتیش کرنا کافی دشوار ہو سکتا ہے۔ اس کے مظلوم صحافیوں سے بات کر کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ وہ شدید صدمے میں ہوتے ہیں اور اپنے نقصان کرنے والے سے بہت ڈرے ہوتے ہیں اور انکو یہ بتایا ہوتا ہے کہ کسی سے مدد نہ لیں نہ صرف کے کسی رپورٹر سے۔ صحافیوں سے بات کرنا انکی زندگی کے لئیے خطرہ ہوسکتا ہے تو اس کام کو شروع کرنے کے لئیے احتیاط سے کام لیجئیے۔ تقصان پہنجانے والے لوگ مجرم ہوتے ہیں اور وہ مزید لوگوں کو بدترین نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ یہ بے رحم لوگ ہوتے ہیں اور اپنے مفادات محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
کس سے بات کریں؟
یہ ذہن میں رکھتے ہوئے، صحافیوں کے لئیے ایسے کئی زرائع ہیں جو ان کو انسانی سمگلنگ کی تفتیش کرنے میں مدد کرسکتی ہیں جس میں جدید غلامی کے لئیے کام کرنے والی این جی اوز سرفہرست ہوتی ہیں۔ عالمی تنظیمیں جیسے کہ انٹرنیشنل آرگنائیزیسن فار مائگریشن، مینڈرو (واک فری) فاوؐنڈیشن، پولرس پراجیکٹ اور کیتھولیک چیرٹیز شامل ہیں اور انکے ملکوں میں موجود نمائندے مخصوص علاقوں کے خاص مسائلوں کے بارے میں معلومات دی سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل جسٹس میشن جیسے دوسرے لوگ قانون نافزکرنے والوں کے ساتھ مل کر مجرموں کی شناخت، گرفتاری اور مقدمہ چلانے کے لئیے کام کرتے ہیں۔ اسارہ انسٹیٹیوٹ کی طرح اور دیگر تنظیمیں مہاجر کمیونٹی گروپوں اور بزنسوں کی آڈٹس اور ورکروں کو آواز دینے میں مدد کرتی ہیں۔ اور پھر فری دا سلیوز جیسے گروپ کا مقصد ایسے حالات تبدیل کرنا ہے کو جدید غلامی کو فروغ دیتے ہیں۔ان میں سے کچھ تنظیمیں یا تو مزہب پر مبنی ہیں، کچھ کو گوورنمنٹ چلاتی ہیں اور کچھ ملک یا موضوعات پر مبنی ہیں۔
انسانی سمگلنگ کی تفتیش کے لئیے ضروری ہے کہ پہلے جتنا ہوسکے اتنی تنظیموں سے بات کریں، کم سے کم ایک درجن۔ یہ آپکا پہلے سے موجود مظلوموں سے تعارف کرواسکتے ہیں، پہلے کے مقدمات کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور ان علاقوں کی شناخت کرسکتے ہیں جہاں پر صحافیوں کو انسانی سمگلنگ مل سکے۔
مثال کے طور پر ملائیشیا کی ربڑ فیکٹریوں کو سالوں سے ہجرت کرنے والے مزدوروں کی زیادتیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے جو کہ غیر قانونی فیس دے کر کام کرنے آتے ہیں۔ جنسی کاروبار مشرق وسطی کے شہر دبئی اور ابوظہبی میں نسلوں سے چلا آرہا ہے جہاں پر لوگوں کو گھریلو کام کے جھانسے میں لاکر جنسی انڈسٹری میں کام کروایا جاتا ہے۔ غلامی کو کمرشل فشنگ میں دستاویز کیا گیا ہے جہاں پر ہجرت کرنے والے ورکر کے ذریعے کام آف شور کام ہوتا ہے جو کہ زیادتی اور پھنس جانے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔
انسانی زرائع کے علاوہ، کئی گورمنٹ اور اقوام متحدہ سالانہ رپورٹس شائع کرتی ہیں جو کہ جدید غلامی سے منسلک مخصوص اور زمیں پر ہونے والے حقائق کے بارے میں معلومات دیتی ہیں۔ اس میں اقوام متحدہ کا منشیات اور جرائم کا دفتر گلوبل رپورٹ آن ٹریفکنگ ان پرسنس، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا ٹریفیکنگ ان پرسنز رپورٹ اور یورپین یونین کا ٹوگیدر اگینسٹ ٹریفکنگ ان ہیومن بئینگ شامل ہیں۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف لیبرایک سالانہ فہرست شائع کرتا ہے لسٹ آف گوڈز پروڈیوس بائے چائلڈ لیبر اور فورسڈ لیبر کے نام سے جس میں 155 ایسی اشیا شامل ہوتی ہیں جیسے کہ کمبوڈیا کا کپڑا ، انڈیا سے سوکر گیند یا یوکرین کا کوئلہ وغیرہ، جہاں سپلائی چین میں کہیں بھی زیادتیاں واقع ہورہی ہوں۔
صحافیوں کے لئے انسانی سمگلنگ کا کافی کام پیسہ اور سپلائی چین کو فالو کر کے ہوتا ہے۔ آنکھوں دیکھا حال اس کا بہتریں طریقہ ہوتا ہے۔ اگر ہوسکے تو، مشاہدہ کیجئے ایسے لیبل اور برانڈز کا اور انکی اشیا کا اور انکے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کا جو انکی زیادتی سے منافع لے رہے ہیں۔ مزدوروں کی سپلائی چین کے لئیے، کاروبار کا ڈیٹا صحافیوں کو اجازت دیتا ہے کہ مخصوص فیکٹریوں سے خریدنے والوں کا شپمنٹ ٹریک کرسکیں ۔
پیسے کا پیچھا کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ کارپوریٹ ریکارڈ کو دیکھیں جو کہ سالانہ کمائی، بزنس پارٹنر ز اور کمپنی کے تعلقات کے بارے میں بتاتی ہے۔ کورٹ کے ریکارڈ بھی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ، جس میں آپ انسانی سمگلنگ کے جرم میں گرفتار ہونے والوں کی ان سے منسلک تنظیموں کی شناخت کرسکتے ہیں۔
کیس اسٹڈیز
جیسے ہی کووڈ 19 پینڈیمک دنیا میں بڑھتا گیا، میڈیکل ماسک، دستانے، سواب اور گاوؐن کی مانگ چین کی فیکٹریوں میں بڑھتی رہی۔ زیادہ تر یہ اشیا چین کی فیکٹریوں میں بنائی جاتی ہیں۔ نومبر 2020 میں گارڈین کی ایک خبر کی منفرد تفتیش کے مطابق، برطانیہ گورمنٹ چین کی ان کمپنیوں سے پی پی ای آلات خرید رہی تھی جنہوں نے خفیہ طور پر جنوبی کوریا کے جبری مزدور رکھے ہوا تھا۔ اس 3 مہینے کی تفتیش سے پتا چلا کہ انہوں نے لوگوں کو غلامی میں رکھا ہوا تھا، جس میں سے بیشتر عورتیں تھیں، جو کہ مسلسل نگرانی میں تھیں اور 18 گھنٹے کام پر لگا رہی تھیں اور چھوڑ نہیں سکتی تھیں۔ جنوبی افریقہ کی حکومت معمول کے مطابق اپنے شہریوں کو غیر مکلکی نوکریوں کے لئیے بھیجتی ہے اور بھر انکی تنخواہ اکھٹی کرتی ہیں۔ اس حرکت کو امریکہ اور اقوام متحدہ دونوں ہی نے جرم قرار دیا ہوا ہے۔ اس کے جواب میں، برطانیہ کی گوورمنٹ نے یہ عہد کیا کہ وہ گورمنٹ معاہدوں پر شفافیت کا مظاہرہ کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ان سپلائی چین میں مزدوروں کے ساتھ تشدد پر افسوس کرتے ہیں اور اسکو ختم کرنے کے لئیے کام کررہے ہیں۔
سی این این: بچوں کی غلامی کی تجارت کے اندر
بچوں کو 250 ڈالر میں خریدا جاتا ہے۔ وہ اپنا دن مچھلی پکڑنے والی جالیوں کو سلجھانے میں لگاتے ہیں۔ اور انکو کوئی اجرت نہیں ملتی۔ فروری 2019 میں سی این این کی رپورٹ نے وہ ہی بے نقاب کیا جو کہ مقامی خبروں کی تنظیمیں اور ایڈووکیٹ سالوں سے کہ رہیں تھیں۔ 20,000 افریقن بچے گھانا لیک وولٹ میں غلامی کا شکار ہیں۔ ان کے والدین انکو مچھیروں کو فروخت کردیتے ہیں یا گائے کے بدلے لے لیتے ہیں۔ انکا کام بہت ہی خطرناک ہوتا ہےْ۔ اس کام کے آگے سے پردہ ہٹانے کے لئیے، سی این این کے صحافیوں نے ایک مقامی ایڈووکیٹ کے ساتھ کام کیا جو کہ اس کام میں غلامی کے شکار بچوں کو بچاتا ہے، انکو پناہ اور تعلیم دیتا ہے۔ یہ بہت ہی مشغول کردینے والی اسٹوری جس میں سی این این ان بچوں کا پیچھا کرتا ہے جیسے کہ وہ کام کرتے ہیں اور انکے خاندان، اغوا کرنے والوں اور بچانے والوں کو انٹرویو بھی کرتا ہے۔ اس سے پہلے جوائے نیوز ۲۰۱۷ کی اسٹوری سلیوس آف دا وولٹا میں بھی ایسے غلامی پزیر بچوں کی کہانی بتائی گئی تھی کہ انکی زندگیوں پر کیسے اثر انداز ہوا۔
اسوسیٹیڈ پریس: سلیوس سے سی فوڈ
18 مہینے کے عرصے میں، اسوسیٹیڈ پریس کو مرد پنجروں میں ملے اور انہوں نے اس سمندری خوراک کو ٹریک کیا جس کو امریکہ کی سوپر مارکٹ اور پالتو جانوروں کی خوراک کے لئیے جاتا ہے۔ اس کام کو 2014 میں پولیٹزر پرائز فور پبلک سروس دیا گیا اور اس سے زیادہ اہم یہ تھا کی اس اسٹوری کے بعد دو ہزار آدمیوں کا رہا کردیا گیا تھا۔ وہاں پر مقدمات ہوئے، مالیاتی سیزر اور انڈسٹری بھر میں مزدوروں کی اپلائی چین کو بہتر بنانے کے لئیے عزم لیا گیا۔ یہ تفتیش اس وقت سامنے آئی جب کچھ آرٹیکل سیریز کئ گئیں جس میں تھائی سمندری خوراک سیکٹر میں کام کرنے والے مچھیروں کی کہانیاں بیان کی گئیں جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ غلامی کا شکار ہیں۔ حالنکہ انکی کہانیاں پریشان کن تھیں، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اے پی کی تفتیش نے ان لوگوں کی شناخت کی جوغلامی کا شکار تھے، ان کے ماسٹروں اور انکے ساتھ کاروبار کرنے والوں کی نشاندہی کی۔ یہ کام ان درجنوں سپلائی چین کی تفتیشوں میں سے تھا جس نے مزدوروں کے ساتھ ہونے والوں تشدد کو بے نقاب کیا اور پابندیاں لگانے پر مجبور کیا۔
ٹپس اور ٹولز
ان رپورٹر کے لئیے جو اس موضوع میں جانا چاہتے ہیں:
صدمے سے دوچار لوگ یعنی جو کہ جنسی اور مزدوری استحصال سے گزر چکے ہوتے ہیں ان کو کیسے انٹرویو کیا جاتا ہے اس بارے میں سیکھئیے۔ ڈارٹ سینٹر فور جرنلزم اور گلوبل انویشٹیگیٹو جرنلزم نیٹورک کے پاس مواد موجود ہے جس سے آپ مدد لے سکتے ہیں۔ این جی اوز سے بھی معلوم کریں کہ آپ اپنے زرائع کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ٹریڈ ڈیٹا کو جمع کرنے والے پنجیوا اور امپورٹجینیس ایسا برآمدی اور درآمدی ڈیٹا رکھتے ہیں جو صحافیوں کومدد دیتا ہے کہ وہ کیسے اشیا کو فیکٹری سے ٹریک کرکے دوسرے ملک میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک فیکٹری میں بننے والے دیگر برینڈز کو بھی دیکھ سکتا ہے۔
اوپن کارپوریٹس دنیا کا سب سے بڑا کھلا ہوا ڈیٹا بیس ہے جس میں دنیا کی 130 علاقوں سے 190 ملین کمپنیوں کا ڈیٹا موجود ہے۔ اس میں کافی کھودنا پڑتا ہے لیکن صحافی کارپوریٹ بورڈ آفس، سالانی رپورٹس اور کمپنیوں کے آرٹیکل کو ٹریک کر سکتے ہیں جس میں وہ لوگوں اور پیسے کو ایک کمپنی سے دوسری تک لنک کرسکتے ہیں۔
جی آئی جے این جیسے نیٹورک کو استعمال کریں یا حال ہی میں اعلان کئیے گئے رپورٹنگ کا اقدام جرنلزم فنڈ کو استعمال کر کےساتھ کام کرنے والوں کو ڈھونڈین۔ اسنسانی سمگلنگ کو کوور کرنا بے حد مشکل ہے لیکن صحافیوں سے اصل اور وصول کے جگہوں پر کام کام کرنے سے کام تھوڑا آسان ہوجاتا ہے۔
معاشرتی اصولوں کا دوبارہ جائزہ لیجئیے: کبھی کبھار ایک عام سا کام کرنے کا طریقہ جدید غلامی کے ضمرے میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر، مشرق وسطی میں کفالہ یا اسپانسرشپ اکثر اوقات ایشیائی مزدوروں، جو عارضی نوکریوں کے لئیے آتے ہیں، انکی قرضے کی بونڈیج کی شکل میں ہوتی ہے، یا پھر ہیٹی میں ریسٹوک بچوں کو ماں باپ گھریلو ملازمت کے لئیے بھیچتے ہیں وہ بھی ایک طریقے کی بچوں کی غلامی ہے۔ اور امریکہ میں اے پی نے ایک ایسی ویزا اسکیم کی نشاندہی کہ جس کے ذریعے ہوائی کی مچھیروں کی فلیٹ ک بغیر امریکن مزدوری قانون کے حفاظت کے۔ بین الاقوامی ورکروں کو کشتیوں میں کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
احتیاط کیجئیے
تفتیشی صحافی نے پنے کام کو بے زبان اور طاقتور لوگوں کے احتساب کے لئیے وقف کیا ہوتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کی تفتیش اور اسکو بے نقاب ان دونوں مقاصد پر اترتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ رپورٹنگ فوری، اور مثبت نتائج لے کر آئے اور طویل مدت کی بہتری لے کر ایسے استحصالی کے کاروبار میں۔ 2014 میرے اے پی کی ساتھیوں ان لوگوں کے پاس واپس گئے جو سی فوڈ فرام سلیوس کی تفتیش کے بعد بازیاب ہوئے تھے۔ ان میں سے کافی صدمے سے دوچار تھے اور راتوں کو دہشت میں گھرے تھے، کچھ شرم اور تشددی حالات میں واپس چلے گئے تھے لیکن ایسے بھی تھے جن کو بہتر کام ملا، کاروبار کھول رہے تھے، خاندان شروع کررہے تھے اور اپنے اسمگل کرنے والوں کو جیل لے جارہے تھے۔ کئی نے کہا کہ انکی تکلیف وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوگئی ہے اور وہ اپنی آزادی کے لئیے بہت شکرگزار تھے۔ “پھر بھی وہ اس بات کے شکر مند تھے کہ وہ گھر میں تھے اور آزاد مردوں کی طرح رہ رہے تھے،” اے پی نے رپورٹ کیا۔ “یہ اب غلام نہیں تھے۔”
________________________________________________
مارتھا مینڈوزا ایک پلیوٹزر انعام یافتہ ایسوسی ایٹڈ پریس رپورٹر ہیں۔ وہ فی الحال کیلیفورنیا میں سلیکون ویلی سے بریکنگ نیوز، انٹرپرائز، اور تحقیقاتی کہانیاں لکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسی ٹیم کا حصہ تھی جس نے 2015 میں جنوب مشرقی ایشیا میں ماہی گیری کی صنعت میں جبری مشقت کو بے نقاب کیا تھا، جس نے 2,000 غلاموں کو آزاد کرنے میں مدد کی۔