انہوں نے یہ کیسے کیا: فیمنسٹ محققین نے اسقاطِ حمل کے حوالے سے غلط معلومات کو سامنے لانے کے لئے بھیس بدلا

Print More

میکسیکو میں ایک بحران حمل کا مرکز۔ بشکریہ: اوپن ڈیموکریسی

ایک نوجوان خاتون کمپالہ، یوگانڈا کے ایک حمل کے کرائسس سنٹر میں جاتی ہیں، جس کا دعوی ہے کہ وہ “خواہش کے بغیر حاملہ ہونے والی نوجوان خواتین کے لئے جوش و جذبہ” رکھتے ہیں۔ انھوں نے وہاں موجود سٹاف کو بتایا کہ وہ 15 سال کی ہیں اور اپنے رشتہ دار کی جانب سے ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہوئی ہیں۔

ان کے مطابق سنٹر میں موجود سٹاف نے انھیں جلدی سے ان کے ساتھ آئی ان کی بڑی بہن سے الگ کیا، اور دو گھنٹے تک انھیں غط معلومات دیتے رہے اور اسقاط حمل نا کروانے، یہاں تک کہ مانع حمل کے طریقے بھی استعمال نا کرنے پر قائل کرنے کے حربے استعمال کرتے رہے۔

مگر وہ خاتون حاملہ نہیں تھیں- وہ ایک 20 سالہ تفتیش کار تھیں ، دنیا بھر میں ایک امریکی انسداد اسقاط حمل خیراتی ادارے سے منسلک “بحران حمل کے مراکز” کے سلسلے کی تحقیقات کرنے والے درجن بھر تفتیش کاروں میں سے ایک۔

“انھیں شرمندہ کیا گیا، جذباتی طور پر پجروع کیا گیا اور بری طرح توڑا گیا،” صحافی کھٹونڈی سوئیٹا ویپیکھولو جنہوں نے بڑی بہن کا کردار نبھایا، نے بتایا کہ ایک وقت پر انکی ساتھی کو اصلی بچہ بھی تھمایا گیا۔ “وہ پیشہ وروں کے ہاتھوں میں تھی”، ویپیکھولو نے کہا۔

وہ اس کھیل سے اچھی طرح واقف تھیں۔ ایک نوجوان حاملہ خاتون کا بھیس بدل کر جب وہ ایک دوسرے حمل کے کرائسس مرکز میں گئی تھیں تو ان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ انھیں بھی ایک بچہ پکڑایا گیا تھا، گو کہ اس مرتبہ وہ سیلیکون کی گڑیا تھی۔

“میں کاؤنسلر کے کمرے میں زور سے روئی کیونکہ یہ اتنا طاقت ور لمحہ تھا۔ جیسے انھوں نے ان سب چیزوں کو اخلاقیات میں ڈھالا،” انھوں نے کہا۔

ویپیکھولو، ایک فیمنسٹ، ملحد، اور جنسی اور تولیدی صحت پر کام کرنے والی کارکن اور ساتھ ہی ایک صحافی ہیں اور اس قسم کے پیغامات کے لئے ایک آسان حدف نہیں۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ یہ سنٹر، جو صرف اسقاط حمل کے خلاف نہیں، ایک عمل جو یوگانڈا میں غیر قانونی ہے، بلکہ عورتوں اور بچیوں کے مانع حمل طریقے استعمال کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، اور عورتوں کے عزم کو توڑنے کے لئے انتہائی پیچیدہ حربے استعمال کرتے ہیں۔

ان حربوں کا سراغ ایک امریکی عیسائی چیریٹی تک پہنچتا ہے جواسقاط حمل کے خلاف پیغام رسانی دنیا بھر میں برآمد کرتی ہے۔

عالمی نیٹ ورک کو بے نقاب کرنا

ویپیکھولو اوپن ڈیموکریسی- ایک آزاد، غیر منافع بخش خبروں کی ویب سائٹ، کی بھیس بدلنے والی صحافیوں کی ٹیم میں سے ایک تھیں، جو 18 ممالک میں حمل کے کرائسس مراکز میں گئیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ خواہش کے بغیر حاملہ ہونے والی خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔

ٹریکنگ دی بیک لیش پروجیکٹ کے ایڈیٹرز، جو دنیا بھر میں خواتین اور ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کی پیمائش کرنے کی کوششوں کی پیروی کرتے ہیں، نے اپنے صحافیوں اور فری لانسرز کے عالمی نیٹ ورک سے ٹیم کو اکٹھا کیا۔

اس ٹیم نے اسقاط حمل کے حوالے سے غلط معلومات دینے والے نیٹ ورک کا پتہ لگایا جو پراجیکٹ کے مطابق میکسیکو سے یوکرین، ایکواڈور سے جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اوپن ڈیموکریسی نے جن مراکز پر تحقیق کی وہ سب امریکہ میں قائم اسقاط حمل کے خلاف تنظیم سے منسلک ہیں۔

اوپن ڈیموکریسی کی ٹیم ، جسے فلاحی تنظیمیں، ادارتی شراکت داری اور قارئین کے عطیات سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے، اس کو تولیدی حقوق کے معاملات میں اب تک کی سب سے بڑی بین الاقوامی صحافتی تحقیقات’ قرار دیتا ہے، جو کہ خواتین تحقیقاتی رپورٹرز کی عالمی ٹیم کے ذریعے کی گئی۔

مراکز میں جانے والی تمام نامہ نگاروں کو ایک جیسے کردار کے طور پر پیش کیا گیا: خواہش کے بغیر حاملہ ہونے والی عورت جو اسقاط حمل کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔ کچھ مقامی صحافیوں نے اپنے سیاق و سباق میں بہتر انداز میں فٹ ہونے کے لئے اپنی تفصیلات کو بدلا۔ یوکرین میں ، ٹیٹیانا کوزک نے ایک بحرانِ حمل کے مرکز کا دورہ کیا، ایک ایسی نوجوان عورت کی حیثیت سے جو ملک کے مشرق میں تنازعہ کی وجہ سے اندرونی طور پر بے گھر ہوگئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا ریپ کیا گیا تھا۔

کوزک نے رپورٹ کیا کہ انھیں غلط بتایا گیا کہ ااسقاط حمل سے انہیں کینسر ہونے کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وہ “پہلے جیسی ہرگز نہیں” رہیں گی اگر انھون نے حمل ختم کروایا۔ رپورٹرز نے غیرمعلوملی طور پر مختلف ممالک میں اسی قسم کی غلط معلومات سنی۔

ایک رپورٹر نے حمل کے کرائسس سنٹر میں کام کرنے کے لئے تنظیم کا آن لائن ٹریننگ کورس لیا۔ ان کے مطابق اسقاط حمل کی تلاش میں خواتین کو بھی ایسی ہی غلط معلومات فراہم کرنے کی تربیت دی گئی – اور ان کا کہنا ہے کہ ایک موقع پر انھیں کہا گیا تھا کہ حمل ختم کرنا عورت کے ساتھی کو “ہم جنس پرست ” بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔

پیسے کی کھوج لگانا

یورپی الیکشنز کے دوران یہ پراجیکٹ پیسے کی کھوج لگانے کی مشق کے طور پر شروع ہوا تھا، کلیئر پرووسٹ کے مطابق، ٹریکنگ دی بیک لیش کی ایڈیٹر اور سائٹ کے 50۔50 کالم، جس میں صنف اور جنسی نوعیت کے موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی امریکہ میں دائیں بازو کی عیسائی تنظیموں کے لاکھوں ڈالر دور دائیں بازو کی جماعتوں تک فنڈ کے طور پر یورپ میں آئے ۔

اس تحقیقیات کو مزید بڑھاتے ہوئے ٹریکنگ دی بیک لیش ٹیم نے پرو پبلیکا کے غیر منافع بخش ایکسپلورر کا استعمال کیا تاکہ 10 سال تک کے 990 امریکی ٹیکس فارمز کا تجزیہ کر سکیں جس کے ذریعے پانچ ملکوں میں ابارشن کے خلاف گروہ سے منسلک ادارے کی نشاندہی کی جا سکے: اٹلی، یوکرین، سپین، میکسیکو اور کروشیا۔

رپورٹرز نے مختلف ممالک میں موجود فون کے ذریعے یا خود جا کران مراکز میں رابطے کئے، ایک ایسی نوجوان خاتون کے بھیس میں جو خواہش کے بغیر ہونے والے حمل کے حوالے سے مدد چاہتی ہوں۔ ان کے مطابق ابارشن کے باعث کینسر ہونا، “اسقاط حمل کے بعد کا سنڈروم” کے خطرات، اور دوسری طرح کی غلط اطلاعت پہلی دفعہ سامنے آئیں۔  

پرووسٹ کہتی ہیں کہ اس پراجیکٹ کا اہم حصہ خفیہ رہنا تھا تاکہ ان تجربات کو دہرایا جا سکے جس سے کئی خواتین جو خواہش کے بغیر حاملہ ہوں گزرتی ہوں، جو بلاشبہ گوگل سے شروع ہوتا ہے۔ بہت سے مراکز، خاص طور پر لاطینی امریکہ میں، مرضی کے حامی گروہ یا اسقاط حمل کی سہولیات فراہم کرنے والوں کے طور پر آن لائن تشہیر کرتے ہیں- کوسٹوریکا میں ایک سنٹر نے یو آر ایل iwanttogetanabortioncr.com. استعمال کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ جو خواتین موجودہ آپشنز کے بارے میں تحقیق کرتی ہے با آسانی امریکی گروہ سے منسلک کسی سنٹر کو آپشن تصور کر سکتی ہے۔

“ہم جاننا چاہتے تھے کہ ایک عورت کو کیا بتایا جائے گا اگر وہ ایک انتہائی قدرتی راہ اپناتی ہے،” پرووسٹ نے کہا۔

تحقیقات نے پانچ ممالک پر ختم ہونا تھا، نندندی آرچر کہتی ہیں، جو 50۔50 کی اسسٹنٹ ایڈیٹر، جنہوں نے طریقہ کار بنانے اور اس کے عمل درآمد کروانے پر کام کیا- مگر جب انہوں نے نتائج کو پرکھنا شروع کیے اور مختلف ممالک میں ایک جیسا نظام دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ تحقیقات کا دائرہ کار افریقہ، لاطینی امریکہ اور یورپ میں بڑھانا چاہیئے تاکہ دیکھا جا سکے کہ غلط معلومات کا دائرہ کار بھی بڑھتا ہے یا نہیں۔ وہ بڑھا۔

18 ممالک میں متعدد زبانوں میں نامہ نگاروں کا رابطہ قائم کرنا ایک بہت بڑا کام تھا۔ ہر ملک میں رپورٹنگ اور نتائج میں مستقل مزاجی کی ضمانت کے لئے ایڈیٹرز نے ایک فارم تشکیل دیا جہاں پر نامہ نگار ان مراکز میں سامنے آنے والے ردعمل کا اندراج کر سکتی تھیں۔

 ہر رپورٹر کے پاس اوپن ڈیموکریسی کے عملے میں سے ایک شخص تک رسائی تھی جس سے وہ رپورٹنگ کے دوران حاصل ہونے والی معلومات اور اس عمل میں اپنی حفاظت سے متعلق گفتگو کر سکتی تھیں۔ ان تمام رپورٹرز کو تفتیش کے لئے بنیادی کاموں پرمشتمل بریفنگ دستاویزات دی گئیں اور کچھ  نے جنسی اور تولیدی صحت کے ماہرین کے ساتھ  ویبینارز میں شرکت کی جنھوں نے وضاحت کی کہ ان مراکز کے چلنے کا طریقہ کار کیا ہے۔

خفیہ طریقے سے کام کرنے سے پہلے، رپورٹنگ کا ایک پہلو ڈیسک ریسرچ بھی تھا جس میں یہ دیکھا گیا کہ کس طرح  یہ مراکز خود کو آن لائن پیش کرتے ہیں، خواہش کے بغیر حمل والی خواتین تک وہ کس طرح پہنچتے ہیں، اور غلط تشہیر اور صحت سے متعلق غلط معلومات کے قوانین کیا ہیں۔

مراکز کا دورہ کرنے کے بعد، فارموں میں نامہ نگاروں کے ردعمل کے ذریعہ ایڈیٹرز کو ایک اسپریڈ شیٹ میں جوابات داخل کرنے اور تمام 18 ممالک میں غلط اطلاع دینے کے طریقوں کو پرکھنے کا موقع ملا کہ کہاں خواتین کو بتایا گیا کہ اسقاط حمل کینسر کا سبب بن سکتا ہے، کہاں انہیں بتایا گیا کہ انھیں اپنے ساتھی سے اجازت کی ضرورت ہے حمل کو ختم کرنے کے لئے وغیرہ۔

نیز ان عام دعوؤں کے ساتھ ساتھ ، دوسرے ،مختلف مقامات پر زیادہ عجیب و غریب مشورے سامنے آئے۔ آرچر نے کہا ، “یوگنڈا اور جنوبی افریقہ میں ، رپورٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ‘ آپ کا اسقاط حمل مستقبل کے صدر کو ہلاک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔”

یوگنڈا میں ایک کلینک ، جہاں رپورٹرز کو بتایا گیا کہ اسقاط حمل کر کے وہ مستقبل کے صدر کو ہلاک کر رہے ہو سکتے ہیں۔ بشکریہ: اوپن ڈیموکریسی

تحقیقات کے جواب میں، امریکہ میں مقیم انسداد اسقاط حمل کے گروپ نے اوپن ڈیموکریسی کو بتایا کہ وہ حمل کے کرائسس مراکز کے لئے اپنے تربیتی وسائل پر قائم ہے۔ ایک ترجمان نے کہا ، “مختلف ممالک میں اپنی ثقافت اور مواصلت کے مختلف طریقے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اسقاط حمل سے خواتین کو خطرہ لاحق ہے۔”

عالمی اثرات

مراکز کے اندر سے ریکارڈنگ کے ساتھ جوابات کی توثیق کرنے کے بعد انھوں نے حاصل کردہ نتائج سے کہانیوں کا ایک سلسلہ مرتب کیا جو نہ صرف اوپن ڈیموکریسی کی سائٹ پر شائع ہوا بلکہ میڈیا پارٹنروں کے توسط وہاں بھی جہاں رپورٹنگ ہوئی جیسا کہ جنوبی افریقہ میں ڈیلی ماورک اور اسپین میں ال ڈیاریو۔

ایکواڈور، کوسٹا ریکا، یوگنڈا، اور یورپ کے عہدیداروں نے ان نتائج کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کچھ حلقوں میں حکومتی ردعمل تیز کردیا۔ یوگنڈا میں، تولیدی ہیلتھ کمشنر نے ویپیکھولو اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے سامنے آنے والی حمل کے کرائسس مراکز میں ہونے والی سرگرمیوں کی مذمت کی۔

ویپیکھولو کے مطابق انھیں امید ہے کہ انکا کام جنسی صحت کے حوالے ججھک کے پہلو میں چھپے مسائل کو واضع کرے۔ “ہم چاہتے ہیں کہ ٹین ایج میں حمل کے کیسز سکینڈینیوئن ممالک جتنے ہوں، مگر ہم وہی طریقے اپنا رہے ہیں جو امریکہ میں بائبل بیلٹ کے زیرِ استعمال ہیں، اور اس کے نتائج سامنے ہیں،” انہوں نے کہا۔

ایکواڈور اور کوسٹا ریکا کے حکام نے کہا کہ وہ اوپن ڈیموکریسی کے نتائج کی چھان بین کریں گے۔ دریں اثنا ، یورپی پارلیمنٹ کے ممبران نے یورپی کمیشن سے مراکز کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے- لیکن اس محاذ پر پیشرفت کو کورونا وائرس نے سست کردیا ہے جو تفتیش جاری ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی مختلف ممالک میں پھیل گیا تھا۔

اس سب میں بھی، پووسٹ کے مطابق جو کچھ وہ سامنے لے کر آئیں اور COVID-19 کے حوالے سے مختلف ممالک کے ردعمل میں مماثلت ہے۔

“حقیقی معنوں میں، یہ تحقیق صحت سے متعلق غلط معلومات کے حوالے سے تھی، جو کہ اس وقت تشویش کا ایک بہت بڑا موضوع ہے،” انھوں نے کہا۔

ایک فیمینسٹ تحقیق

اوپن ڈیموکریسی کا یہ پراجیکٹ اس حوالے سے غیر معمولی ہے کہ یہ مکمل طور پر “فیمینسٹ تحقیق” ہے، ہر مرحلے پر خواتین کی جانب سے کیا گیا جیسے کہ مختلف جگہوں پر خود جا کر رپورٹنگ، منصوبہ بندی، ایک دوسرے سے رابطے قائم رکھنا اور نتائج کو پیش کرنا۔

“خواتین اس کی قیادت کر رہی تھیں، خواتین اس پر کام کر رہی تھیں اور اس میں سب سے اہم خواتین کے حقوق تھے”۔ آرچر نے کہا۔

جیسے موسمیاتی تبدیلی کی تحقیقات سائنسدانوں اور موسمی تبدیلی سے انکار کرنے والوں کے درمیان جھوٹے توازن کو برقرار نہیں رکھتا، پرووسٹ اور آرچر کے مطابق فیمنسٹ تحقیق کا مطلب یہ تھا کہ انہیں یہ تفتیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسقاطِ حمل “ٹھیک” ہے یا “غلط” : خواتین کا جسمانی خود مختاری کا حق من و عن تسلیم کیا گیا۔

پرووسٹ نے کہا ، “ہمارے منصوبے کی ایک اہم بنیاد یہ ہے کہ خواتین اور ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔” “ہم ان معاملات کی تحقیقات سیاسی فٹ بال کی حیثیت سے نہیں کرتے ہیں – اگرچہ ہم ان کے سیاسی ہونے کی تحقیقات کرتے ہیں – لیکن ہم ان کو حقوق کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔”

اور گو کہ پرووسٹ کہتی ہیں کہ ٹیم کو اپنی تحقیق اور اس کے نتائج پر فخر ہے جنھوں نے بے نقاب کیا کہ کیسے اسقاط حمل کے مخالف امریکی گروہ ایک منظم طریقے سے دنیا بھر کی خواتین کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں، انھیں نھیں لگتا کہ ان گروہوں کو کسی بھی صورت یہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی۔

“کسی کو یہ ہم سے پہلے کرنا چاہئیے تھا،” انہوں نے کہا۔ “یہ موضوع سرحد پار تحقیقات کے لئے اہم تھا اور اگر خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جاتا، مزید تحقیقاتی ٹیموں کے ذریعے زیادہ سنجیدگی سے کام ہوتا، اور مزید تفتیشی ایجنڈوں پر یہ ہوتا تو یہ کہانی بہت پہلے سامنے آ چکی ہوتی۔”

________________________________________________________

میگن کلیمنٹ ایک صحافی اور ایڈیٹر ہیں جو صنف ، انسانی حقوق ، بین الاقوامی ترقی ، اور سماجی پالیسی میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ پیرس میں صنف ، سیاست ، کھیل اور زندگی پر ٹویٹس کرتی ہیں ، جہاں وہ 2015 سے مقیم ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *