ایڈیٹر کا نوٹ: جی آئی جے این میں ، ہم کاروان کی ہمت انگیز صحافت سے طویل عرصے سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں, جو اب ہندو قوم پرستی کے زیر اثر ہے، رسالہ آزاد نگران میڈیا ذرائع ابلاغ کی ایک بہت کم تعداد ہے۔ لہذا ہمیں کاروان، اس کے متحرک ایڈیٹر ونود ہوزے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایک آزاد پریس پر ہندو قوم پرستی کے اثرات پر ایکت تفصیلی فیچردیکھ کر خوشی ہوئی۔ ہم مصنف میڈی کرویل اور ورجینیا کوارٹڑلے رویو کے پابند ہیں، جہاں یہ کہانی پہلی بار شائع ہوئی، اس کی دوبارہ اشاعت کی اجازت کے لئے۔
ایک چھوٹا لیکن با اثرمہانہ میگزین، کاروان، کے دفاتر نئ دہلی میں واقع ایک سووئیٹ اسٹائیل کی عمارت ک تیسری منزل پر موجود ہیں۔ ایک عرصے تک، میگزین کے ایڈیٹر ونود ہوزے نے اپنی کھڑکی کے باہر کے منظر پر خاص توجہ نہ دی: گلمہر کے درخت کی ابھرتی جھاڑیاں جس کے گرد سگرٹ کے عادی دائروں بنائے لنچ بریک کے دوران سگرٹ پھونکتے۔ لیکن کچھ سالوں بعد منظر تبدیل ہونے لگا۔ ایک نئ عمارت کا اسٹیل سے بنا ڈھانچہ پودوں میں سے نمودار ہونے لگا اور ہوزے کی دلچسپی کو بڑھاتا رہا۔ ان کو جلد ہی پتا چلنا تھا کہ یہ بھارت کی سب سے طاقتور دائیں بازو سیاست کرنے والی ہندو قوم پرست تنظیم اور ہوزے کے صحافتی کیرئیر کو طے کرنے والی رشتریا سوایمسیوک سنگھ (آرایس ایس) کا نئی دہلی کا ہیڈکوارٹر ہے۔
“ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ اگر وہ میری پروفائیل لکھ رہے ہوتے تو یہ اس کا ابتدائی منظر ہوتا۔” ہوزے نے آرایس ایس کے ہیڈکوارٹر کی طرف اشارہ کرتے بتایا جب ہم اپریل 2019 میں ملے۔ چالیس سالہ ہوزے جو کہ پرسکون انداز میں بات کرتے ہیں اپنے آپ کو ایک پرسکون اتھارٹی کے ساتھ لے کر چلتے ہیں جو کہ دہلی کی افراتفری سے ہٹ کے ہے۔ وہ اپنے دفترکو کراس کرکے پہنچے، ساتھ ہی میں رکھی کتابوں کی تھدی اورتالہ لگی فائیلوں کی کیبنٹ جن پر”دا گجرات فائیلز” اور “امیت شاہ” کے لیبل لگے تھے انک ے پاس سے احطیات سے گزرتے ہوئے ایک پرانی سوئیل کرسی پر جا گرے۔ ہوزے جو کہ بھارت کہ تخریبی صحافیوں میں سے ہیں اور میرے سابقہ باس رہ چکے ہیں جب میں چھ سال پہلے کاروان میں انٹرن تھی، ان کے لئے مجھے ایک اچھا ابتدائی منظر پوائنٹ کرنا اتنا مختلف نہیں تھا جیسے کہ موسم کی پیشن گوئی کرنا ہو۔ ان کی زندگی اور صحافت عملی طورپر نہ جدا ہونے والے پہلو ہیں۔
وہ درست تھے۔ یہ منظر واقعی ایک اچھا استعارہ تھا۔ کاروان اور آر ایس ایس بھارت کے عوامی شعبے میں قریبی مخالف ہیں۔ 1925 میں وجود میں آنے والی، آر ایس ایس نے عرصے تک بھارت کو اپنے تکثیری عزائم کو چھوڑ کر ایک مکمل ہندو قوم بننے کے لئے ایڈووکیٹ کرتا رہا ہے۔ ایک نظریہ جو کہ نریندر مودی، جو کہ گروپ کہ ابتدائی پروجی میں سے رہے ہیں، ان کے الیکشن سے پروان چڑھتا رہا ہے جب وہ 2014 میں آرایس ایس کے غیر سرکاری سیاسی ونگ، بھارتیا جنتا پارٹی سے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ اسی دوران، کاروان بھارت کی جمہوریت اورمزہبی متنوعیت کے مشن کی حفاظت کرتا رہا ہے اکثر اوقات آر ایس ایس اور اس سے وابسطگی رکھنے والوں کی مکمل تفتیش کی۔
میگزین اورقوم پرست تنظیم کے درمیان محاز آرائیاں عدالت میں اور آنلائن ہی رہی ہیں۔ یہ ہر جمہوریت میں ہوتا ہے اورقابل ذکر بات نہیں ہے لیکن حال ہی میں یہ فکر رہی ہے کہ کوئی اسٹوری اصل ہی میں تشددکی وجہ نا بنے۔
مودی کے الیکشن سے پہلے ایک واقعے میں، کاروان نے ایک دھماکہ خیزکووراسٹوری کی جو کہ سوامی اسئمانند کے انٹرویووز پرمبنی تھی۔ یہ دائیں بازو کی سیاست کا ہندو مانک تھا اور اس نے دعوہ کیا تھا کہ آرایس ایس کوان کے 2006 سے 2008 تک مسلمانوں ک نشانہ بنانے والے کئی بم دھماکوں کے بارے میں معلوم تھا جن میں سو سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ جس دن یہ اسٹوری شاٰٗئع ہوئی تھی اس روز سو کے قریب مظاہرین کارواں کے دفتر کے باہر پیلے جھنڈے لیے جمع ہوئے اور تحریر لیے ہوئے تھے جس پرلکھا تھا “بین اینٹی ہندو کاروان” اور انہوں نے میگزین کی کاپیوں کوآگ لگائی۔
اس صبح، ہوزے کو درجنوں نا معلوم کالز آئیں۔ آفس اورموبائیل دونوں پرجس میں کئی کالرز نے کہا کہ “وہ انکے پیچھے آرہے ہیں” ایک اور چیخا “مادرچود” اور غیر ظاہری طور پر دھمکی دی کے وہ میگزین “بند” کروا دینگے۔ پولیس اور نجی سیکیورٹی مظاہرین کو عمارت میں گھسنے سے روکنے کے لئیے آئی جبکہ ٹیلیویژن رپورٹرز نے باہر ہونے والی افراتفری کو کوور کیا۔ مظاہروں کے بعد سے، میگزین کی طرف خطرہ بر قرار رہا ہے اور جیسے ایک سائے اور غیر ظاہری طور پہ آج کل صحافیوں پردباوؐ ڈالا جاتا ہےآن لائن ٹرولنگ کے زریعے، کمپیوٹر نیٹورک کی خلاف ورزی، اور جیسے کاروان کے کیس میں کچھ ڈیفمیشن مقدموں کے زریعے۔
مسلسل اور ابلتے ہوئے خطرات میں رہتے ہوئے، ہوزے، کا خیال ہے کہ یہ اس بات ثبوت ہے کہ وہ بحیثیت صحافی کچھ ٹھیک کررہے ہیں۔ تقربآٓٓ ہرروز ہی ہوزے کو بدنامیت بھرے ٓان لائن پیغامات ملتے ہیں جس میں ان پر “ریبڈلی اینٹی ہندو”، ” اینٹی نیشنل” یا “کرسٹن بیگٹ” یا “ڈیپ اسٹیٹ جرنلسٹ عنود کے ہوزے کومی کولمبیا یونیورنٹی کے”۔ ہوز کو پورا یقین ہے کے کاراواں کا دفتر نہیں تو انکا سیل فون تو ٹریس ہورہا ہے۔ مودی کے وزیراعظم ببنے کےچھ ماہ بعد ہی ہوزے نے اپنے مشقوق ظاہر ہونے والے ڈرایئورکو نکال دیا اور دوستوں نے بھی انہیں خبردار کیا کہ وہ کام پر جاتے ہوئے متبادل راستے اختیارکیا کریں۔
جتنا بھارتی میڈیا مودی کے الیکشن کے بعد سے تناوؐ کا شکار تھا، حالات مزید بدتر ہی ہوئے ہیں۔ کئی ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ وہ مودی کے حامیوں کے ہاتھوں غنڈہ گردی کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ بی جے بی سے متعلق تنقیدی آن لائن کوورج کو ہٹادی جائے اس کے ساتھ ہی وہ اخبارات جنہوں نے منفی اسٹوریزشائع کی انکومالی طورپرسزا دی گئی گوورمنٹ فنڈڈ اشتہارات روک کر۔ اس کے ساتھ ساتھ، مرکزی دھاروں سے شمولیت رکھنے والے صحافی اپنی سیاسی
وابستگیوں کے بارے میں گھمنڈ نہیں رکتھے لیکن اپنی پوزیشن انہوں نے وا ضح کردی ہے۔ جب اگست 2019 میں بی جے پی کے وزیر خزانہ انتقال کر گئے تھے، بھارت کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن چینل، ٹایمز ناؤ کے رپورٹر، ارون زیٹلی، نے ٹوئیٹ کیا کہ ” انہون نے اپنے رہنبائی روشنی کھودی یے۔ میں اب ہر صبح کس کو فون کروں گا؟”
سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ مودی پرتنقید کرنے والوں کی سنسرشپ اب تشدد کی طرف بڑھ گئی ہے۔ جب سے انہوں نے آفس سںنبھالا ہے، 12 صحافی اپنے کام کے واسطے مارے جا چکے ہیں اور کم سے کم ۹ جیل میں ہیں۔ 2017 میں، معروف صحافی، گوری لنکیش کو شام کے وقت بنگلورمیں اپنے گھر کے سامنے ماری گئی تھیں۔ گوری ایک واضح اور خاموش نہ رہنے والی فیمینسٹ ،انسانی حقوق کے کارکن اور بائیں بازو کی سیاست میں ہندو قوم پرستوں پر ٹیبلوائد جیسے حملے کرنے کی وجہ سے مشہور تھیں۔ وہ ہوزے کی قریبی دوست بھی تھیں اور دونوں نے مل کر 2005 میں گوا میں ہونے والے متنازعہ فسادات کوور کئے تھے۔ ان کی موت سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ نئ حکومت آنے کے بعد بھارتی صحافی کس سنجیدگیی سے مشکل میں تھے ۔ اس واقعے کے کچھ دیربعد ہی ایک دائیں بازو قوم پرست جس کو موودی خود بھی فالو کرتے ہیں ،ٹوئیٹ کیا “ایک کتیا کتے کی موت مری تو ساری کتے کے بچے ایک ہی دھن میں رونے لگے۔”
لنکش کے قتل کے بعد، ہوزے نے کاروان کے ملازمین کے لیے پروٹوکول لاگو کردئے: ساری مواصلات اب انکرپٹڈ چینلز جیسے کے پروٹون میل یا سگنل پر ہوتی ے۔ (ان کا خیال ہے کہ بھارت میں واٹس ایپ پروٹیکٹد نہیں ہے۔) اور رپورٹرز جوحساس موضوعات پراسٹوری کر رہے ہیں ان کواحکامات دیے ہیں کہ وہ اپنے ذرائع کو محفوظ رکھیں۔ اور پھر بھی، کارواں میں کام کرنے والے اور لوگوں کی طرح، ہوزے کو حکومتی دھمکیوں کے بارے میں باتیں کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ “آپ اپنا کام ہلکا یا روک نہیں سکتے کیونکہ کچھ ہوگیا ہو۔ اس کام کی کئ ضروریات ہیں،” بلکہ وہ یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کے آیا میں کارواں کی اسپیشل کورٹ کے جج بریجگوپل لویا کی پراسرا موت کی کووریج (اٹھایئس اسٹوری اور مزید) کو فالو کررہی ہوں کے نہیں یا میں نے انکی آر ایس ایس کی منظمی طور پر دانشوری اسپیسز میں داخل ہونے پر کوور اسٹوری پڑھی یا نہیں۔
اس کا فون بجا۔ ایک ذرائع ایک ٹپ کے ساتھ۔ دہلی کے ہائی پروفائیل سماجی دائیروں میں ایک افواہ گھومتی رہی ہے کے آنے والے قومی الیکشن میں بی جے پی اتر پردیش کی ریاست میں پولنگ مشینوں میں مداخلت کرنے کے لیئے۔ “سیلیکون ویلی کے چپس” استعمال کر رہی ہے۔ یہ بات اگر سچ ہو تو اسکے معنی یہ ہوتے ہے کہ دنیا کی سب سی بڑی جمہوریت میں الیکشن فراڈ ہورہا ہے۔ کیا وہ اسکو نہیں دیکھنا چاہیں گے؟ ہوزے نے میرے طرف تقریبا بے بسی کے انداز سے۔ انہوں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ انکا چھوٹا سا میگزین جو کے ایک محدود فنڈنگ پر مبنی تھا 38 لوگوں کے اسٹاف پر مشتمل تھااور فکشن اور نظموں پر رجحان رکھنے والا وہ واحد آوؐٹلٹ ہوگا جو کہ حساس اور سیاسی بریکنگ اسٹوریز کریگا ا یک کھرب کی آبادی والے ملک میں ۔ “یہ کام روزنامہ اورہفتہ واراخباروں کا ہے لیکن کوئی بھی کوور کرنے کے لیئے قدم نہیں اٹھارہا تھا” ۔ انہوں نے مجھے فون بند کرنے کے بعد بتایا۔ اس کو یہ کرنا ضروری لگا۔ آپ کس طرح کا رد عمل کریں ان اسٹوریز پر جو صحافیت سے متعلق ہو لیکن کوئی بھی نہ کررہا ہو؟”
یہ کے کارواں بھارت کے میڈیا لئنڈسکیپ میں اتنی اہم جگہ لیگا اس بات کا تصور نہیں تھا۔ 1940 میں اپنے پہلے ورژن میں، کارواں ایک معروف، عام دلچسپی کے موضوعات پر بھارت کے دانشوروں کے لیے میگزین تھا، 1988 سے پہلے جب وہ بند ہوگیا تھا۔ اگلے دو دہائیوں میں، میگزین غیر فعال رہا اس وقت تک جب کارواں کے بانی پبلشر، دہلی پریس، کے پوتے، اننت ننتھ نے اسے زندہ کرنے کا فیصلہ نہیں کرلیا۔ اس وقت ، نتھ نے حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی سے پولیٹکل سائینس میں ماسٹرز کی ڈگری لی تھی اور انکو جنوبی ایشین میڈیا مارکٹ میں ایک ایسے میگزین کے لئیے جگہ نظر آئی جو کے بھارت کے بھرپور ادب کو کاشت کرسکے۔ “میگزین کا مقصد یہی تھا کہ سیاست، فن، اور ثقافت پر ہو ایک آزاد خیال رخ کے ساتھ۔” نتھ نے بتایا جب ہم آخری بہار میں ملے، کارواں کے ہوا دار اور جدید کارنر آفسز میں۔ “میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ بہت خبر انگیزیا زیادہ سیاسی ہو”، انہوں نے کہا، لیکن اس سے زیادہ ، انکا ایجنڈا” تنگ زہن نہ ہونا” تھا۔
کارواں باقاعدہ طور پہ 2010 میں دوبارہ لانچ ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارتی منافعہ بخش میڈیا انڈسٹری پر بقول بھارتی صحافی پی صایئناتھ “فیل گوڈ” صحافت کا راج تھا۔ ان اسٹوریز نے بھارت کے معاشیت کوعروج کو جوش و خروش سے دکھایا گیا جبکہ سماجی اور معاشی عدم مساوات میں جکڑی اکثریت آبادی کو نظرانداز کیا گیا۔ ” اس کا دراصل یہ مطلب تھا کہ آپ غریب اکثریت کو فرنٹ صفحات پر نہیں رکھ سکتے۔” سدھارتھا ڈیب، قابل عمل اور کارواں کے معاون ایڈیٹر نے مجھے بتایا۔ “ونود اس کے بلکل خلاف تھے۔ اننت اوروہ رپورٹنگ اور تحقیق میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ ان اسٹوریز کے بارے میں فکر مند تھے جو مرکزی دھاروں سے تعلق رکھنے والے آوؐٹلٹ نطر انداز کرتے ہیں۔
اس وقت لانگ فارم صحافت کے بارے میں بھارت میں اتنا نہیں سنا گیا تھا۔ انڈیا ٹوڈے، آوؐٹلک، دا ویک، اور تہلکا جیسے مییگزین سالوں سے موجود تھے ، لیکن وہ ٹائم اور نیوزویک کی طرح ہفتہ وار تھے اسکے برعکس، کارواں، ایک ادبی تجربہ ہونا تھا۔ اپنے اصل 2010 کے “وژن ڈاکیومنٹ” میں،ہوزے نے یہ اعلان کردیا تھا کہ کارواں ایڈ ٹوریل مزاج کے اشارے امریکن صحافت کے نئ لہر کے بانیوں سے لیگا جیسے کہ ٹام وولف، گے ٹالیس، اور ڈک شاپ۔ ہوزے نے ایک نئے مصنفف کے نئے برینڈ بنانے کا تصور کیا جس کو انڈیا کے تعلیم یافتہ “پاپ انٹیلیجنٹسا” پڑھیں گے۔
اس لحاظ سے کارواں کا دوبارہ وجود میں آنا کامیاب رہا۔ میگزین کے ابتدائی مصنف اور معاون ایڈیٹر میں جنوبی ایشیا کے ادب کے بڑے نام شامل تھے: پنکاج مشرا، ارندھتی رائے، سدھارتھا دیب، اور فاطمہ بھٹو۔ “کاروان بھارت کے انگریزی میڈیا میں مکمل طور پر مخصوص تھااور ہے۔” مشرا نے مجھے حال ہی میں لکھا۔” اس نے بھول جانے والے مصنفوں پر توجہ مرکوز کی”۔ کچھ ہی سالوں میں کارواں ملک بھر میں تقریبا 25000 کاپیاں تقسیم کررہا تھا اور اسکی ویب سائیٹ اب ماہانہ 15 لاکھ ویوذ حاصل کرتا ہے۔
کاروان کے ابتدائی ایڈیٹوریل ڈیزائن کی انسپریشن ہوزے کو نیوز روم کے اندر سے نہیں ملی بلکہ، امریکی صحافی میتھیو پاور سے آئی، جو کہ ہارپر میگزین کے معاونی مصنف ہیں اور اپنی خانہ بدوشی اور دور دراز علاقوں سے فائیل کی گئی کرداروں سے بھر پور اسٹوریز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ہوزے کی پاور سے دہلی میں 2002 میں ملاقات ہوئی اور دونوں جلد ہی دوست بن گئے “جیسے مکھن اور ڈبل روٹی” ہوزے کہتے ہیں۔ پاور نے انکا تعارف ہارپرز، دا نیویارکراوردا بیلیور جیسے میگزین سے کروایا۔ ہوزے یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ انکی پروڈیکشن میں کیا کیا جاتا ہے۔ “میں نے یہ سوچا کہ یہ صحافت کا نیا دور ہے اور ایک بہت ہی بامشقت عمل۔” ہوزے نے مجھے بتایا۔ ” میں نے سوچا کہ میرے ملک میں ایسا کچھ کیوں نہیں ہے۔ ہمارے پاس لانگ فارم کرنے کی جگہ کیوں نہیں ہے؟”
بھارت کے نوجوان دانشوروں کے لئیے کارواں جلد ہی ایک ایسا ضروری وینیوبن گیا جو کہ میڈیا کےسنسنی خیزاورگورمنٹ کی خوشامدی والے ماحول سے ہٹ کے تھا۔ “کارواں اکیلا ہے لیکن ایک بہادر کرن ہے ایک نا ختم ہونے والے زہریلے سیویج میں، جعلی خبروں اور سوشل میڈیا کے تششدد میں۔” دیب نے کہا۔ ” جہاں تک دہلی کی بات ہے یہ اکیلا ہی ہے۔”یہ نہ ہی مکمل طور ہر ادبی میگزین تھا نہ ہفتہ وارخبروں کا میگزین نہ ہی کتابوں پر تنقیدہ جایئزہ رکھنے والا، بلکہ ان سب کا مجموعہ ایک پیریڈاکل کے شکل میں، جو کہ بقول مشرا کے “خبروں کا تجزیہ متنازعہ سیاست میں”۔
جب میں بطور انٹرن کارواں میں 2014 میں آئی تو اس طرح کی “متنازعہ سیاست” بی جے پی کے ردعمل میں پروان چڑھ رہی ھی۔ اس دوران، کارواں نے، الگ سا مزاحیہ انداز اور واضح ادبی سمجھ کا انداز بر قرار رکھا۔ میں “انٹرن کارنر” میں بیٹھتی تھی جو کہ سیلز ڈپارٹمنٹ کے برابر میں خالی، دھول مٹی سی بھری جگہ تھی جہاں پر میں دوسرے انٹرنز کے ساتھ فکٹ چیک اور کاپی ایڈیٹنگ میں مدد کرتھی تھی اور اسکے ساتھ ساتھ ہم بغیر اجازت کے چائے کے وقفوں کے لئیے نکل جاتے تھے۔
زیادہ ترآفس موناسٹری کی طرح خاموش ہوتا تھا۔ ہندی میں ایک سائن لگا ہوتا تھا جس پر لکھا تھا “فارغ بیٹھنا ممنوع ہے”۔ اس وقت مواد دانشوری طور پہ اور انفرادی طور پہ متوازن ہوتا تھا جس میں گیبرائیل گارسیا مارکیز (کئ طرفہ جینیس) اور رابندرانتھ ٹاگور (شاعر جن کو اپنی آواز پرقابو تھا ) جیسوں کی کتابوں پر تنقیدی تبصرے اور ایسے تنقیدی سوچ پر مبنی پیسز “ترجمے کو غیر ترجمعہ کیسے کیا جائے” اور پیرو، ترکی اور کومبوڈیا جیسے ممالک سے ڈیسپیچز، یہ سب سیاسی فیچرزکے ساتھ ساتھ چل رہا تھا جن کی وجہ سے میگزین مانا جاتا تھا۔
مودی کے مقبولیت سے میگزین کی شناخت میں بھی تبدیلی ہوئی۔ “مجھے نہیں لگتا کے اسکا آپ ارادہ کرسکتے ہیں”۔ نتھ نے مجھے بتایا ، تقریبا معافی بھرے انداز میں، جیسے کے وہ اس وقت کو یاد کررہے ہوں جب کارواں کو کتابی تنقیدی تبصروں کے لئے زیادہ جا نا چاہتا تھا۔ “لیکن میگزین اپنا روپ خود دھارتا ہے، اور بعض وقت کسی براہراست سوچ کے۔ پچھلے چار سال سے یہ ہو رہا ہے کہ، درمیانی مرکزی دھاروں سے تعلق رکھنے والے میڈیا آوؐٹلٹ، غیر جا نبدارینہ طور پہ گوورمنٹ پرتنقیدی نہیں ہیں۔ کارواں نے باقاعدہ طورپہ سیاسی تفتیشوں پرتوجہ دینی شروع کردیں اس حد تک کے خود رپورٹ کئے جانےوالے “سیاسی اور تہزیبی جرنل” کے لئے اسکے تہزہبی کووریج ذیلی ہو گئی۔ “کارواں کی آمد کا مطلب یہ ہوگیا کہ مرکزی دھارے میں شامل امنسک صحافت معمول نہیں رہے گی۔ بھارتی ناول نگار اور وسار کالج کی پروفیسر، امیتاوا کمار نے مجھے بتایا کہ “وقت کے ساتھ ساتھ ایک نیا ذاویہ سامنے آیا ہے۔ پہلے میں نے سوچا کہ کارواں ایسی اسٹوریز ممکن بناٰئے گا گن کی حد 5000 سے 8000 الفاظ ہو سکے گی۔ اس نے یہ کیا ہے۔ لیکن زیادہ طاقت اس بات میں ہے کہ صحافی گہری، تفتیشی اسٹوریز کرسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہر ایشو میں واٹرگیٹ کو بینقاب کرتے ہیں۔”
سب سے معروف ترین فیچرجوز نے 2012 میں کیا تھا ، اٹھارہ ہزارالفاظ ہر مشتمل مودی پر پروفائیل تھی، بی جے پی کا اسٹار جس کے بارے میں یہ افواہ تھی کہ وہ وزیراعظم بن رہے ہیں۔ وہ آرٹیکل مودی کے سیاسی ارتقاء پر ہے، جو کہ آٹھ سال کی عمرمیں شروع ہوئی جب انہوں نے رضاکارانہ طورپہ اپنے آبائی شہرگجرات میں آرایس ایس کا ٹریننگ کیمپ میں شمولیت لی تھی اوروہاں سے وہ بی جے پی کے معروف شخصیت بنے۔ اس ہی وقت، اسٹوری نے جدید بھارت کی طاقتورسیاسی مشینری کے اندرونی کاموں کو بینقاب کیا۔ “نریندر مودی ک کہانی،” ہوزے نے لکھا، “ان اداروں کی کہانی بھی ہے جو ان کے دور میں پرورش اور تربیت ہوتی ہیں۔” جس میں سب سے اہم رشتریا سوامسیوک سنگھ تھے۔
ہوزے کے مطابق، مودی کےعروج کو سمجھنے کےلئیے سو سال کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ کے جو 1925 میں ہندو قوم پرست کی پیدائش سے شروع ہوتی ہے جب کے بی ھیڈوار نامی ہندوڈاکٹر نے آرایس ایس بنائی۔ ہیڈوارکو فکر تھی کہ ہندوشناخت جوانکونہ صرف مزہب لگتا تھا بلکہ نسل پرستی لگتی تھی اوراسکی حفاظت، پاکیزگی اورساخت دوسرے مزہبوں سے الگ رکھنی تھی، اورانکو یقین تھا کے بھارت کے مسلمان اورعیسائی ہندووں کے اولادیں ہیں جن کو جبری طور پہ ان کے مزہبوں پر تبدیل کیا گیا تھا۔
خود اعلانیہ یورپی فاشسٹ کے مداح، ہیجواڑ نے ملٹری مشقوں کے لئیے سینٹرل بھارت میں اپنے آبائی علاقے ناگپور میں تربیتی کیمپ بنائے تھے تاکہ جوان ہندو کو لڑائی کی تکنیکیں جیسے تلوار، ٹریشلز، دھامکے اور گیس کے سلنڈر کا استعمال سکھایا جا سکے۔ 1960 میں ہیجوار کی وفات کے بعد، گروپ کے”.سپریم ڈاریکٹر”، مادھو سداشو گولوالکر نے آر ایس ایس کے انتہا پسند آرائیاں بر قرار رکھیں اور نازی جرمنی کے بارے میں اپنا مینیفسٹو “وی، اورآور نیشنہوڈ دیفاینڈ” میں بہت شاہانہ اندازمیں لکھا۔ “نسل پرستی اورثقافت کی پاکیزگی کے لئیے” گولوالکر نے لکھا، “جرمنی نے سیمیٹک نسلیں، یہودیوں کو ٍصاف کر کے ساری دنیا کو حیران کیا۔ نسل پرستی پر فخر کی حتی مثال یہاں دکھائی گئی۔ جرمنی نے یہ بھی دکھایا ہے کی کتنا قریبی مشکل ہے نسل پرستی اور ثقافت کو آپس میں گھل مل کرایک ہوجانا اگرجڑ میں ہی اختلافات ہوں، اور یہ ہندوستاں کے لئیے اچھا سبق ہے سیکھنے اور منافعہ حاصل کرنے کے لحاظ سے۔” ۔ گوالکر کے لئیے، بھارت نہ تکثیری اورنہ ہی مذہبی متنوع ملک تھا بلکہ “ہندوستان” تھا۔ ان کے لئیے، مسلمان اور عیسائی بے دین “قبضہ کرنے والے” تھے۔
تین سوسال کےغیر ملکی جبری حکومت کے بعد جس سے اینٹی کولونیل جوابی کاروائی ہوئی تھی ، ا۹۴۷ میں، برطانوی اناڑی طریقے سی اور جلد بازی میں برصضیر کا کنٹرول چھوڑ گئے تھی اور بھارت اور پاکستان کوان کی طویل عرصے سے مانگی جانے والی خود مختاریت دے گئے۔ ہندو اور مسلمنوں کے درمیان تشدد دہائیوں سے پنپ رہا تھا اس طرح تک جب بٹوارہ سرکاری طور پہ عمل میں آیا، جو کہ ایک خوشی کا موقع ہونا تھا، کچھ ہی گھنٹوں میں خون ریزی کا منظر اختیارکرگیا جس میں تقریبا بیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ دونوں نیئ قوموں کو اینتی تھیٹیکل خیا لات اپنانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے 1960 میں مسلمان اکثریت ریاست کی تخلیق کی قرارداد پاس ہونے کے بعد، پاکستان نے “اسلامی جمہوریہ” ہونے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف انڈیا کے بانیوں نے محنت کی، کم از کم نظریاتی طور پہ ہی، کہ وہ ہندو مسلمان کی ہم آہنگ مساوتی قوم ہوگی جس کی سیکولر اقدار ہوں گی ۔
آرایس ایس نے بھارتی آئین کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ خود مختاریت کے پانچ ماہ بعد ہی، 78 سلہ موہنداس گاندھی کا قتل کردیا گیا جب وہ ایک دعا کی میٹنگ کے لئیے نئی دہلی جارہے تھے۔ بھارت کے روحانی لیڈر جن کی زندگی کا مشن تھا کہ بر صغیرکواسکی خود مختارانہ حکومت ملے اور بھارت کے مزاہب اورذاتوں میں امن ہو۔ انکا قاتل، نتھورم گاڈسے، جو کے آر ایس ایس کا رکن تھا، اس نے فوری گرفتاری دی اور اپنی ٹرائل کو ایک سیاسی پلیٹفارم کے طرح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ “گاندھی مسلسل اورمستقل طور پرمسلمانوں کے لئیے چہک رہا تھا۔” جس کی وجہ سے “ہمارے ملک، مادر وطن کی تقسیم کی۔” گاندھی کے قتل کے جواب میں بھارت کے پہلے وزیراعظم جوا ہرلال نہرو نے آرایس ایس پرعارضی طور پہ پا بندی لگا دی تھی اور بیس ہزار سے زائد ارکان کو گرفتارکرلیا تھا۔ “لیکن دہائیوں بعد”، ہوزے لکھتے ہیں، “اس نے ایک انڈرگراوؐنڈ تنظیم کی روح بر قرار رکھی۔” آج آرایس ایس نے اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی “سماجی تنظیم جو کے بھارتی پنروتھان کے لئیے سرشار ہے” جس کی انداز کے طور پر بھارت میں رکنیت تقریبا ساٹھ لاکھ کی ہے۔
خود مختاریت کے دس سال بعد، موودی نے آرایس ایس میں شمولیت حاصل کر لی۔ ان کو گروپ میں پروان چرھنے کے لئیے کم ہی عرصہ لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے 13 سال کی عمر میں تہ شدہ شادی کو ترک کیا تاکہ وہ اپنے آپ کو آرایس ایس کی سخت اور مشقت ذدہ زندگی بطور پراچرک یعنی برہم “فٹ سولجر” کی طرح۔ 1987 میں، گروپ میں اور زیادہ طاقتور کردارُلینے کے لئیے ، مودی بی جے پی میں چلے گئے اور پھر بالاخر 2001 میں گجرات کے وزیراعلی ٹھہرگئے۔ وہ اس وقت 51 سال کے تھے یعنی اپنپ زندگی تنظیم کے لئیے وقف کردی تھی۔
جب ہوز نے ان کے بارے میں لکھنا شروع کیا تو لوگ مودی کواچھے طریقے سے جانتے تھے۔ ہوزے کا پھرکام یہ تھا کے وہ اخباری سرخیوں سے آگے بڑھ کے، پڑھنے والوں کو انکی مکمل نفسیاتی تصویر دکھائیں “ایک کوشش” انکے الفاظ میں “اس شخص کی سوچ کو سمجھنے کے لئیے۔” گجرات اور دہلی میں ایک مہینے رپورٹنگ ، آر ایس ایس اور بی جے پی کے اندرورنی ذرائع کے 100 سے زائد انٹرویو لینے کے بعد، ہوزے نے بہت احتیاط سے ان قووتوں کو دستاویز کیا جو مودی کو طاقت میں لائے اورانکی پچیدگیوں کو اثرورسوخ کیا انکے کیرئیر کے ایک ہنگامہ خیز موقع پر:2002 میں گجرات میں ہونے والے ہنگامے جو کے ریاست کے مسلامنوں کے خلاف تین دن کا پوگرام تھا جس میں ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔ آرایس ایس کی جانب سی منظم کیا گیا ہجوم مسلمانوں سے ہولناک بدلا لینے کے لئیے سڑکوں پہ نکلا کیونکہ انکا ماننا یہ تھا کے 58 ہندو ظاہرین ریل گاڑی میں مارے جانے کے لئیےمسلمان ذمہ دار تھے۔ جیسا کے ہوزے نے لکھا، مسلمان عورتوں کے ساتھ زنا بلجبر کیا گیا اور مردوں کو زندہ جلایا گیا، مردوں کو “ٹکرے کردیا گیا۔” بچوں کو بھی کاٹ دیا گیا تھا۔ ایک نمایاں مسلمان سیاستدان، احسان جعفری کو بغیر کپڑوں کے پریڈ کروایا گیا اور پھرحملہ آوروں نے انکی انگلیاں اور ٹانگیں کاٹ دیں اورانکو گھسیٹتے ہوئے جلنے کے لئیے ڈال دیا۔
آج تک مودی نےاس قتل عام پرکبھی عوامی طور پی پچھتاوے کا اظہارنہیں کیا۔ بلکہ، اس واقعے کے فوری بعد ہی انہوں نے ایک ہندو قوم پرست ریلی منعقد کی جس سے انکی ریاست میں حمایت کو فروغ ملا۔ بعد میں رائٹرز کہ رپورٹر نے جب ان سے پوچھا کی آیا انکواس تشدد پر ملال تھا، مودی نے بعد ادھر ادھرکردی اورکہا : اگر “کوئی اور گاڑی چلا رہا ہو اور آپ پیچھے بیٹھے ہوں، اگر اس وقت کتے کا بچہ گاڑی کے نیچے آجائے، کیا درد ہوگا کی نہیں؟” مودی نے کہا۔ “ظاہر ہے کہ ہے۔”
گجرات ہنگاموں کے سفارتی اثرات شروع میں بہت مہلک تھے۔ دونوں برطانوی اور امریکی حکومتوں نے انہیں ایک دہائی تک ٹریول ویزا جاری نہیں کیا۔ اورانکی اپنی جماعت میں کئی اعتدال پسند بی جے پی کے لیڈران نے، دونوں اندرونی اور عوامی طور پہ مودی کا اس تشدد میں ہاتھ ہونے پراپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ لیکن ہوزے نے جلد ہی یہ دریافت کیا کے بی جے پی نے مودی کا تاثرتبدیل کرنے کے لیئے ایک پرزوراور کامیاب مہم کی۔ جس کسی بھی بی جے پی لیڈر نے مودی پرتنقید کی اسے منظم طریے سے پارٹی سے ہٹا دیا گیا، جس میں سابق وزیرمحصول، حرن پانڈیا شامل تھے گن کو 2003 میں گجرات میں قتل کردیا گیا۔ ہوزے کی پروفائیل چھپنے کے ایک ماہ بعد اور مودی کی گجرات حملوں میں ملوث ہونے کے اپنے طور پر چارسال تفتیش ہونے کے بعد، سپریم کورٹ کی منتخب ٹیم (جس کو سابقہ ڈائریکٹر سینٹرل بیوروآف انویسٹیگیشن لیڈ کر رہے تھے) نے نتیجہ دیا کے مودی ہرجرم چارج کرنے کے لئیے ثبوت ناکافی ہیں۔
مارچ 2012 میں گجرات ہنگاموں، کوعوام کے زہنوں سی نکلنے کے دس سال مکمل ہونے کے موقع پر کاروان میں شائع ہونے والی کووراسٹوری، دا ایمپیررانکراوؐنڈ، نے مودی کی سیاسی پروان پرایک نئی اور شدید بحث کو جنم دیا۔ اس آرٹیکل کو دونوں قومی اور بینالقوامی اخباروں نے اٹھایا، جس میں، واشنگٹن پوسٹ، داوال اسٹریٹ جرنل، دا گارڈین، لو مونڈے، اور نیویارک ٹائمز شامل تھے اور جن کی سرخیوں نے ایک نیا سوال اٹھانا شروع کیا،” نریندر موودی کون ہیں؟”
اس کے برعکس مودی کو اپنا صحیح تاثر زندہ کرنے میں ذیادہ عرصہ نہیں لگا۔2014 تک، مودی ایک بھاری کامیابی کے ساتھ منتخب ہوئے اور ٹائم میگزین نے انہیں ایک چمکدار کوور اسٹوری نئے وزیراوظم کودی۔ یہ جملہ فقرہ “وائے مودی میٹرز” ، اوراسکے ساتھ ساتھ مودی کی پوری باڈی کی تصویر جس میں وہ پیلا کرتے کے ساتھ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئیے مئ 2015 کے ایشو کے کوورکی زینت بنے ہیں۔ اس نے موودی کو بطور بھارت کی تعمیری اور معاشی اصلاح کے جواب میں دکھایا۔ ایک مقدس شخصیت جو بھارت کو ایشیا کی جدید سپر پاوربنا دیگا۔ ٹائم کے آرٹیکل آنے کے کچھ عرصے بعد ہی ، بھارتی نیوذ اینکر، سگاریکھا گھوس، جوکے معروف چینل سی این این آئی بی این سے منسلک تھیں، انہوں نے مودی پر ایک سیگمنٹ پرمیزبانی کی۔ اپنے دائیں ہاتھ میں انہوں نے کارواں کی کووراسٹوری کی کاپی لی اوربائیں ہاتھ میں ٹائمزکی کاپی اور کیمرے کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا : “کونسا مودی اصل مودی ہے؟”
آفس مکمل کرنے کے پہلے سال ہی، یہ واضح ہوگیا تھا کے دونوں میں سے ایک مودی ہی ابھر کے آیئں گے۔بی جے پی کی طاقت کی استحکامات کا اتفاق بھارتی میڈیا کی خاموشی کے ساتھ ہوا۔ نمایاں نیوزآوٹلٹ جو کے کسی وقت، گوورمنٹ پر تنقید کرتے تھے انہوں نے اچانک اپنی تنقید ہلکی کرلیں اوران میں سے جنہوں نے نہیں کیں انکو سزا بھگتنی پریں۔ نیویارکرمیں ڈیکسٹرفلکنس نے رپورٹ کیا کہ بھارت کا سب سے بڑا اور معروف ٹیلی ویژن نیٹورک، این ڈی ٹی وی نے 1600 میں سی ایک چوتھائی اسٹاف کو نوکری سے اس وقت نکالا گب گوورمنٹ نے انکی اشتہاری فنڈنگ کھینچ لی۔ اس سال پہلے ہی، مکیش امبانی جو کے مودی کے دوست اور ایشیا کے امیرترین آدمیوں میں سے ہیں، انہوں نے سی این این آی بی این حصل کر لیا۔ گھوس کا سیگمنٹ اور اسکے ساتھ ساتھ مودی کے بارے میں جتنی بھی تنقیدی کوریج ہوتی رہی تھی سب رات ورات غائب ہوگئی۔
“یہ صحافیوں کے لئیے بدتریں ٹائم ہے” اتل دیو کارواں کے اسٹاف مصنف نے مجھے بتایا جب ہم لنچ پرنئی دہلی میں ملے۔ باہر شدید گرمی تھی، ایسی گرمی جس سے سستی گھیرتی ہے۔ قومی انتخابات پرجوش طریقے سے ملک کے ہر کونے میں ہورہے تھے۔ مودی کی ہرتھورے دن ایک نئے شہرمیں آمد ہورہی تھی اورانکے ساتھ ساتھ میڈیا بھی تیزی سے ٹو میں تھا۔ دیو نے اسکا محاسبہ 1970 میں وزیراعظم اندرا گاندھی کے طرف سے ایمرجنسی نافز کرنے سے لگایا جس میں شہری آزادیاں منسوخ کردی گئی تھیں اورپریس کو سینسرکرنے کے ساتھ ساتھ اورصحافیوں کو بلا ترتیب جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ “لیکن دیکھیں ایمرجنسی بلکل کھل کراعلان کی گئی تھی۔ ” دیو نے سمجھایا۔ “یہاں پر ہمارے پاس ایک ایسی صورتحال ہے جس میں ہرادارہ پس منظر تخریب کاری کا نشانہ بنتا نظرآرہا ہے۔ اور یہ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتا جب تک اسے بے نقاب نہ کیا جائے۔”
ڈھائی سال پہلے، دیو کو بھارت کی سب سی بڑی اسٹوری پر کام کرنے کو ملا، جو کے میگزین نے فریلانس رپورٹر، نیرنجان ٹاکلے، کے ساتھ شائع کی تھی: اسپیشل کورٹ جج ، بریجگوپل حرکیشان لویا، کی اچانک موت پر تفتیش۔ ان جج کو انڈیا سینٹرل بیوروآف اینویسٹیگیشن کے کیسز کی لئیے تقرر کیا گیا تھا۔ جن کو ،رپورٹس کے مطابق، دل کا دوڑا پرگیا تھا جب وہ مودی کے قریبی مشیر، امیت شاہ کے قتل کی عدالت کی صدارت کر رہے تھے۔ اسٹوری بہت جلد ہی جیسے کی نیویارک رویوآف بوکس کے مطابق، “اسکینڈل کے اندراسکینڈل اوراسکے اندراسکینڈل”۔ ایک خلل جو کہ رازوں اورگوورمنٹ کی طرف سے ڈھانپے جانے والے منصوبوں سے بھری ہیں۔
اس اسٹوری کو رپورٹ کرنے کے لئیے، دیو نے ناگپور کے کئی دورے کئے۔ ناگپور آرایس ایس کا قومی ہیڈکوارٹر ہے، اور دیو نے اپنی حفاظت کےلئیے کئ ہوٹل تبدیل کئے۔ آنے والے پانچ ہفتوں میں، انہوں نے کئی اسٹوریز فایئل کیں، اس میں سے ایک میں یہ ظاہر ہوا کہ لویا کے گورمنٹ گیسٹ ہاوؐس میں جہاں پرانہوں نے مبینہ طور پہ قیام کیا تھا اس قیام کے ریکارڈز کو مینیپولیٹ کیا گیا تھا۔ اور اسکے بعد ایک اور اسٹوری میں، ایک اعلی فرانزک ماہرنے اس بات کی تصدیق کی کے لویا کے میڈیکل ریکارڈ سے دماغ پر صدمہ ظاہر ہوتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کے انکو زہردیا گا ہو۔ اپنی رپورٹنگ کے دوران، دیو مسلسل گھبراہٹ کا شکاررہے اور ان کا ڈر بڑھتا گیا۔ ایک دن، جب وہ ناگپور میں اپنے تیسرے دورے پرتھے اوروہ ایک زریعے کی تلاش میں ایک محلے سے گزر رہے تھے، ایک موٹر سایئکل پر سوار آدمی ، انکے قریب آیا اور ہیلمٹ کے پیچھے چھپے ہوئے اس نے ہندی میں اسے دھمکی دی: “دہلی واپس چلے جاوؐ”۔
ناگپور پرمبنی رپورٹنگ، جو کے جلد ہی کارواں کے ایک اوراسٹاف مصنف، نیکیتا سیکسینا کو منتقل کردی گئی تھی۔ وہ ایک تھکا دینے والاعمل تھا ، دیو کے مطابق “گلوریفایئڈ فیکٹ چیک” “ان سب چیزوں کا جو حکومت اور اخبارات جاری کرہے تھے۔” جبکہ لویا کی موت کوسرکاری طور پہ دل کا دورے کی وجہ قرار دیا جارہا تھا، کارواں کی ٹیم جو کے کئی رپورٹر پر مشتمل تھی اور اسٹوری کے الگ الگ سروں پر کام کررہی تھی، انہوں نے کئی ایسے حقائق کھودے جو کے گوورمنٹ کے بیانیے کے مترادف تھے” لویا کے گھروالوں کے مطابق، انکو ڈیڑھ سوملین ڈالر شاہ کو بری کرنے کے لئیے بطوررشوت پیش کئیے گئیے تھے، اوررپورٹنگ سے یہ ظاہر ہوا لویا کے کپڑے خون میں لت پت تھے، جبکہ گیسٹ ہاوس میں کسی نے بھی رات کو ایمبولینس کو آتے نہیں سنا تھا، حتی کے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ساتھ بھی بی جے پی سے منسلک ڈاکٹر نے گڑ بڑ کی تھی۔
جب کارواں نے لویا پرنومبر 2017 میں پہلی اسٹوری شائع کی، تو پہلے تو مرکزی دھارے میں شامل نیوز آوٹلٹ نے کوئی توجہ نہیں دی۔ لیکن اسے وائرل طور پہ ، وکیلوں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں نے شیئرکیا اورعلاقائی اخباروں نے اسے پک کیا۔ اس دوران اسٹیٹ انٹیلیجنس آفس آف مہاراشٹرا، وہ ریاست جہاں پرلویا رہائیش پزیر رہے، کام کیا اوروفات پائے ، نے معاملے کی تفتیش شروع کی۔ کارواں کی جانب سے لویا کی کووریج سے ایسی درخواستیں بھی درج ہوئیں جس نے سپریم کورٹ پر دباوؐ ڈالا کے وہ انکی وفات پر انکوائری کھولیں۔
کارواں کے بیانیے کوغلط ثابت کرنے کے لئیے، بھارت کے سب سے بڑا اخبار، انڈین ایکسپریس نے اسکے جواب میں اسٹوری شائع کی جس میں دوہائی کورٹ کے ججوں کا حوالہ دیا گیا کہ جس میں انہوں نے یہ دعوہ کیا کی وہ اس اسپتال میں موجود تھے جہاں پر لویا نے دم توڑا تھا۔ “ان کے مرنے کے حالات میں ایسا کچھ نہیں تھا جس سے کوئی شک و شبئ پیدا ہو۔”
کارواں نے دودرجن سے ذائد اسٹوریز پر فالواپ کیا۔ سیکسینا نے چھ ہفتے ناگپورمیں گزارے اور اس گیسٹ ہاوؐس کے سارے ماضی اورموجودہ ملازموں کو ڈھونڈا جہاں پر یہ کہا جارہا تھا کہ لویا ٹھہرے تھے۔ ” وہاں پر کسی سے بھی جج کو انکے قیام کے دوران دیکھنے کی ایک بھی گواہی نہیں ملی اور اس بارے میں کوئی معلومات بھی نہ ملی کے کسی کویاد ہو کے وہاں ٹھہرے کسی اعلی شخصیت کو دل کا دورہ پڑا ہو اور وہیں وفات کرگئے ہوں۔ ” یہ ہمارے لئیے بہت حیران کن تھا کیونکہ جس کمرے میں لویا ٹھہرے ہوئے تھے وہ استقبالیے کے بہت قریب تھا۔ میرا خیال ہےکہ رپورٹنگ کے دوسرے حصے میں وہاں تقریبا روز جایا کرتا تھا۔ ہم اس حد تک توجہ دے رہے تھے کے ہم کسی طرح غلط تو نہیں ہیں؟”
اپریل 2018 میں، سیکسینا دیو کے ساتھ بھارتی سپریم کورٹ گئے یہ سننے کے لئیے کی آیا کورٹ لویا کی موت پرغیرجانبدار تفتیش کھولیں گے یا نہیں۔ سیکسینا کا یہ خیال تھا کہ کم سے کم کارواں رپورٹرز کی طرف سے نئے شواہدوں کے زیرنظرکورٹ اینکوائری کھولے گی ۔ اسکے بجائے، کورٹ نے یہ کہا کے لویا قدرتی وجوہات کے بنا پرفوت ہوئے ہوں، اور اس پر مزید کوئی تفتیش نہیں ہوگی۔ “اس پر دنگ رہ جانے والی خاموشی ہوگئی۔” انہوں نے یاد کیا۔ “میرا نہیں خیال کسی کو پتا تھا کے اس پر کیسے ردعمل کریں۔”
لویا کی اس خلل سے بھارتی سپریم کورٹ کا بی جے پی گوورمنٹ سے اثرورسوخ ہونے کی بہت مضبوط مثال بنتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ، لویا کووریج کارواں کے لئیے اہم موڑ نکلا۔ جب 2012 میں میگزین نے موودی کی پروفائیل شائع کی، انہوں نے اورانکے اسٹاف نے یہ امید کی تھی کے یہ قوم کے سیاسی مستقبل کی لئے ایک مضبوط اثرات لائے گی۔ “مجھے شروع ہی میں اندازہ ہوگیا تھا کہ بہت کم لوگوں کو موودی کے خطرات کا اندازہ تھا۔” ہوزے نے کہا۔ “بہت سے لوگوں کی یہ امید تھی کی موودی آرایس ایس کو استعمال کر کے، اقتدار میں آئے گا اور ایک آزاد خیال انسان بن جائے گا جن کو انکے ساتھ مل کر کام کرنے میں خوشی محسوس ہوگی۔” اسکے بجائے، مودئ نے پارٹی کے ایجنڈے کا صاف ستھرے رہنما کا کردار اپنایا ہے۔ جب تک لویا کا اسکینڈل قومی فلیش پوائنٹ بنا ایک نئی حقیقت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ جبکہ ہوزے نے ایک بار بھارتی جمہوریت کو مودی کے خطرات سےخبردار کیا تھا، اب آٹھ سال بعد، میگزین کے رپورٹرکے لئیے سائنسدانوں کی طرح ،جمہوریت کا وصال ریکارڈ کرنا ہی کام رہ گیا تھا۔
کارواں کے دفتر میں کلوسنگ کے ہفتہ چل رہا تھا ، قومی انتخابات کچھ ہفتے دور ہی تھے اور میگزین میں کام کا انبار کے ساتھ ساتھ اسٹاف کی کمی تھی۔ وہ جگہ سیلے ہوئی اور بند تھی اور کیوبیکلس سے علیحدہ تھی جس میں شیشے لگے تھی جو رازداری کا کام کم ہی کرتے تھے اور کھڑکیوں پر شیڈز لگے تھے جو کے کمرے کو سلگتی ہوئی دھوپ سے بچاتے تھے۔ مجھے لگتا تھا کے جیسے میں ایسے پوشیدہ تعلیمی سیل میں ہوں جہاں پر فلسفی اور ادبی کتابوں کا گھٹر ڈیسکٹاپ کمپیوٹرس کے برابر میں رکھا ہو۔ آفس کی پچھلی صف میں، ایک انٹرن، ٹیبل پر پیر رکھے، جے ڈی سالنغر کی کتاب “نائن اسٹوریز” پڑھ رہا تھا۔
مہم مکمل جو ش سے جارہی تھی اور مودی کا چہرہ بھارت میں ہرجگہ نظر آرہا تھا۔ میگزین میں، انتخابات پس منظر میں ایسے چل رہا تھا جیسے ایک خراب ٹیلیویژن کی اسٹیٹک اسکرین۔ ہوزے نے حال ہی میں انٹرن اور فیکٹ چیکرز کے لئیے “موودی میٹر” نامی پراجیکٹ شروع کیا تھا جس میں 2016 کے انٹخابات کے منشور میں کئیے گئے سینکروں وعدوں کو سختی سے فیکٹ چیک کیا گیا اورریٹ کیا گیا کے آیا وہ پورے ہوئے یا نہیں۔ ایک اور “ہگس” نامی پراجیکٹ میں ایک نقشہ بنایا گیا ان ساری جگہوں کا جہاں پرمودی نے سیاسی لیڈروں کو اپنے 57 دوروں میں گلے لگایا تھا، اورجن میں انہوں نے لیڈران کے ساتھ ان ساری تصاویر بھی رکھی گئی تھیں جن میں صدر ٹرمپ، ااردوان، اورپیوٹن شامل تھے۔ نقشے کے آخرمیں، اسٹاف نے یہ حساب لگایا کے مودی کے گلے لگانے کا امکان اور جی ڈی پی کا آپس میں کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ انہوں نے یہ حساب لگایا کے جتنا اونچا جی ڈی پی تھا اتنا ہی اونچا گلے لگانے کا امکان۔
اس ہفتے سب سے زیادہ اہم بزنس کورٹ میں ایک اور ہتک عزت کے مقدمے کی سنوائی تھی۔ کارواں کے ایڈیٹوریئل خودمختاریت کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کے انکا پبلشر، دہلی پریس، کسی گورمنٹ اشتہاروں پر منحصر نہیں رہا۔ بلکہ اسکو سہارا ہے ایسے 30 سے زائد نامور گھریلو اور خصوصی دلچسپی کے میگزینوں سے جو کی سالانہ5 سے 10 ملین ڈالر کما کر کارواں کو اجازت دے پاتے ہیں ” کاروباری کامیابی کی نہیں بلکہ ایڈیٹوریئل کامیابی کی”، جیسے کی اننت ناتھ کہتے ہیں۔ لیکن ریسورسز ایسے نہیں ہے کے نہ ختم ہونے والوں میں سے ہوں اور کارواں کو اکثر اسکی سزا ہتک عزت کے مقدموں کی صورت ملتی ہے۔ سالوں سے کارواں کو اتنے ملے ہیں، کی ہوزے نے اپنے آفس میں ایک فولڈر رکھا ہے “دا ڈیفیمیشن فایئلز” کے نام سے تاکہ وہ کھو نہ جائیں۔ انکا ڈاک کے ذریعے آنا اسٹاف کے لیے کافکا جیسی کامیڈی کی شکل اختئار کر گیا ہو، جیسے کے مقدے اچھے صحافیوں کے لئیے گزرگاہ بن گئے ہوں۔
ایک دن ہوزے نے مجھے تازہ ترین مقدمے کی سنوائی کے لئیے بلایا جس میں ، بھارت کے قومی سیکیورٹی مشیر، وویک دووال کارواں پر مجرمانہ بدنامی کا مقدمی کررہے تھے۔ داوؐ بہت اونچے لگے تھے: اگر کاروان کیس ہارتا توپبلشر، پریش نتھ، اوراسٹاف مصنف، کاشال شراف، دونوں ہی کو جیل کاٹنی ہوتی۔
جب میں نئے تعمیراتی، کیمومیل عمارت راوؐس اوینیو کومپلیکس پہنچی جہاں پر زیادہ تربدعنوانی کے کینسز سنے جاتے ہیں تو ہوزے وہاں پر ویٹنگ ایریا میں ٹوپی پہنے اور بٹن ڈاوون پولو شرٹ پہنے جیسے لگرہا تھا کہ وہ سمندر جارہے ہوں اکیلے بیٹھے تھے۔ وہ کافی آرام سے لگ رہے تھے۔ ایک گھنٹے بعد، آدھے سی زیادہ میگزین کا اسٹاف آیا اور ایک چھوٹے سے بغیر کھڑکی والے فلورسنت روشنی والے کمرے میں لایا گیا جہاں پر چارقطاروں میں مہوگنی بینچیں جج کے سامنے لگی تھیں۔
جب تک سنوائی شروع ہوئی، ایک مجمع بینچوں پرہوگیا تھا اور دروازوں تک باہر نکل آیا تھا، اور لائیٹرکی طرح اپنے موبایئل فون آسمان کی طرف کئیے ہوئے شکایت ریکارڈ کرتے رہے: دووال کارواں پرایک چھوٹا سا آن لائن اارٹیکل چھپنے کا نا قابل تلافی نقصان پرمقدمہ کرہے تھے۔ اس آرٹیکل میں یہ شائع ہوا تھا کہ وہ ، کیمن جزیرے، جو کہ ٹیکس ہیون ہے، وہاں ایک منافع بخش ہیج فنڈ چلا رہے ہیں، جو کہ موودی گورمنٹ کی جانب سے چھوٹے روپے کی نوٹوں کوڈیمونیٹائیزایشن کے 31 دن بعد سیٹ اپ کیا گیا تھا “بدعنوانی کی جنگ کے خلاف کا حصہ” کے طور پہ۔ کارواں کے وکیلوں نے ایک جامع انداز میں اسکو مسترد کیا کہ: آرٹیکل سرکاری تجارتی دستاویزات پر مبنی تھے اورکوئی بھی حقائق سے جڑی بے ضابطگی ہوگی، یہ بہت بھر پور طریقے سے فیکٹ چیک ہوا ہے اور شراف کے مطابق، دووال نے سوالوں کی فہرست کو نظرانداز کیا جو انکے بیرون کاروبارکی عین نوعیت سے متعلق کے تھے۔ بیس منٹ بعد، سنوائی ختم ہوئی۔ کارواں کو 6000 ہزارروپے(560 امریکن ڈالر) ناتھ اور شراف کے بطورضمانت کے پیسےدینے تھے جبکہ عدالت کی تاریخ چھ مہینوں بعد کی دی۔ ٹرائل کو، دہائیاں نہیں تو کئی سال لگیں گےاورمیگزین کو اس سے ریوسورسز سے نچوڑ لے گا۔ لیکن جب اسٹاف تصاویر کے لئیےاکھٹے ہوئے تو وہ سب خوش لگ رہے تھے۔ میں نے شراف سے پوچھا کہ وہ کیوں منارہے تھے۔ “میں ضمانت پر ہوں” انیوں نے کہا، اپنا انگھوٹا اوپر اٹھاتے ہوئے، “مجھے جیل نہیں جانا پریگا۔”
اسی دن کچھ دیربعد، میں نے ہوزکوانکے آفس میں اپنی کرسی میں سوتا پایا۔ وہ اپنی میز پر رات گئے اورصبح سویر ایک ٹپ “سیلیکون ویلی” کو فالو کررہے تھے دو ریاضی کے پروفیسرکے ساتھ جو دیکھ رہے تھے کی آیا بی جے پی نے پولنگ مشین کے ساتھ ٹیمپرنگ تو نہیں کی۔ یہ اسٹوری وہ پورے ہفتے اپنے سیاسی ایڈیٹر، حتوش سنگھ بال کےساتھ خاموشی سے تفتیش کرہے تھے۔ (بعد میں پتا چلا کے یہ اسٹوری ایک اندرونی بکواسیت پخرنت کے ڈیٹیکٹر” کو پاس نہی کی۔ نمبر آپس میں نہیں مل رہے تھے)۔
جب میں بیٹھی توانہوں نے اپنے دن کی پانچویں کالی کافی آرڈر کی اور کہا کہ انہیں اس ہفتے زیادہ نیند کی امید نہیں تھی۔ ان کی میز پر جوسف پولیٹزرکا 1906 کا مضمون رکھا تھ جس میں نئے صحافتی کالج کے بارے میں لکھا تھا اور وہ اسکو اپنےآغازی تقریرکی تیاری کے لئیے پڑھ رہے تھے جو وہ جنوبی بھارت کے ایک صحافتی اسکول میں کچھ ہفتوں بعد دے رہے تھے ۔ کچھ لمحوں کے لئے انکے نا تھکنے والی توانائی، تھکن میں تندیل ہوگئی۔ ” چیزیں اتنی پستی کی طرف جلدی جارہی ہیں،” انہوں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ “عدلیہ، میڈیا، جامعات، اور سماج کے شعبوں میں گراوٹ ظاہر ہے۔”
اس مہینےکارواں کی کووراسٹوری آرایس ایس کے بارے میں تھی کہ وہ کیسے بھارت کی ریاست کی چلنے والی جامعہ، جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کو خاموشی سے ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر لے کر آرہی ہے۔ اسکورپورٹ کرنے کے لئیے، سنگھ بال نے ایک مہینے سے زیادہ تک کورٹ کے دستاویزات پڑھے، دہلی میں آرایس ایس کے ہیڈکوارٹر گئے اور پروفیسر اور طلبہ کوانٹرویو کیا۔ اان کو معلوم ہوا کے آرایس ایس نے ایک بند کمرے کی”نولیج سمٹ” کا انععقاد کیا یہ بات چیت کرنے کے لئیے کی “قوم پرست کا اصلی بیانیہ” کو ان تعلیمی مقامات پر کیسے لایا جائے جو بایئں بازو اور آزاد خیال قووتوں کا حصہ ہیں۔ سنگھ بال نے لکھا کہ یہ پوری تحریک مودی گوورمنٹ کی طرف سے ایک “پرپیگینڈا” سے کم نہیں تھی تاکہ “کسی قسم کا بھی اختالاف، یا پھرآر ایس ایس ،بی جے پی یا وزیراعظم نرندرموودی پر سوال اٹھانے کی کوشش کواب قومی سلامتی پر خطرے کی شکل دے دی جائے۔”
“میرا سب سے بدترین خوف اس ملک کو اس سمت میں جاتا دیکھنا ہے”، سنگھ بال نے مجھے میگزین کے نیم نجی میٹنگ کی جگہ پرتفصیل سے بتایا۔ یہ جگہ ایک شیشے کا ٹیلیفون بوتھ جیسا کمرہ تھا جہاں پر پرانے مٹی سے بھرے ایشوز رکھے ہوتے تھے۔ سنگھ بال جو کہ صحافی بننے سے پہلے ریاضی میں تربیت رکھتے تھے، لمبے جملوں میں بات کرتے جو بہت صفائی کے ساتھ انکے اصل نْقطے سے جڑ جاتے۔ “میں آر ایس ایس کو بیس سال سے زیادہ عرصے سے کوور کرہا ہوں، میں نے انکی پروان، انکا اختیار لینا، انکا قبائلی علاقوں اور اسکولوں میں کام دیکھا ہے۔” انکے لئیے آر ایس ایس کا دانشوری کی جگہوں کا نشانہ کرنا، بھارتی ذہن کے بند ہونے کی علامت ہے، یہ وہ عمل جو کے ایک صدی سے ملک کے سارے کونوں میں ہوتا رہا ہے۔ ان کا یقین تھا کی آرایس ایس کی طاقت آنے والے سالوں میں بڑھے ہی گی۔ ” موودی کو تو ووٹ کے زریعے نکالا جاسکتا ہے”، انہوں نے کہا ، “لیکن آرایس ایس کو ووٹ کرکے باہر نہیں کرسکتے۔”
مئ 2019 میں مودی ایک بار پھر انتخابات جیت گئے اتنے مارجن سے جس سے انکی اپنی پارٹی بھی دنگ رہ گئی۔ بی جے پی نے 303 نشستیں جیتین جب کے جیتنے کے لئیے کم سے کم 272 کیا اکثریت چاہئیے ہوتی ہیں۔ اپنے فتح کی تقریر میں، موودی نے وعدہ کیا کہ وہ آرایس ایس کے طویل مدت پر مبنی بھارت کو ایک ہندو قوم کی پہچان کے منصوبوں کو پورا کریں گے۔ “آپ نے دیکھا ہوگا کے 2016 سے 2019 تک جو لوگ سیکیولرزم کے بارے میں بات کرتے تھے وہ اب خاموش ہوگئے ہیں۔” انہوں نے کہا۔ ” اس انتخابات میں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت سیکیولرزم کا لیبل پہن کرلوگوں کو دھوکہ نہیں دے سکی!۔”
مودی نےآرایس ایس کے ویژن کو آگے بڑھانے کے لئے جلد ہی قدم اٹھائے۔ اگست میں، انکی حکومت نے بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کردیا جس سے متنازعہ کا شکار کشمیر کو جس حد تک خود مختاری حاصل تھی وہ ختم کردی اور سارے مواصلات پر بلیک آوٹ نافز کردیا۔ کشمیری کارکنان اورصحافی غائب ہوگئے، اسپتال اورٹاور بند کردئیے گئے اورآرمی افسران کو ہدایت دے دی گئیں کہ جو بھی کرفیو کی خلاف ورزی کرے اسے گولی ماردی جائے۔ اس ہی مہینے، حکومت نے ایک فہرست تیار کی، جس کو نیشنل ریجسٹر آف سیٹیزن یا “ٓافیشل” شہری جو کے اسام کے دور دراز کونے میں رہتے ہیں ان میں ۲۰ لاکھ سے بھارتی شہریت چھین لی گئی۔ پھر نئے سال سے پہلے، سپریم کورٹ نے سیٹیزن امندمنٹ ایکٹ منظورکیا، جس نے راستہ دیا ایسی اقلیتوں کو جو بھارت سے باہر رہتی تھیں اور مزہبی تشدد کا شکار تھیں، سب علاوہ مسلمانوں کے۔
دسمبر میں، ، ملک کے کئی شہروں میں احتجاج شروع ہوگئے۔ گوورمنٹ نے سختی کے ساتھ انکا جواب دیا ، موبایئل سروسز معطل کردیں ان جگہوں پر جہاں پراحتزاج متوقع تھے، لوگوں کو بلا ترتیب جیل میں ڈالا گیا اور ساری عوامی اجتاماعی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ جب جامعہ ملیا اسلامیہ، جو کے ملک کی ممتازاسلامی جامعہ ہے، کے طلبہ گروپ نے سیٹیزنشپ امنڈمنٹ کے خلاف ایک پرامن احتجاج منعقد کیا تو پولیس نے کیمپس کا ریڈ کیا، اورآنسوگیس اورلائیو راونڈز کا باقاعدہ استعمال کیا اورلائیبریری میں بھی موجود طلبہ کو مارپیٹ کا نشانہ بنایا جو کے صرف بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ کچھ ہفتے بعد، بی جے پی کی طلبہ ونگ سے وابسطہ ماسک پہنے ماب، جو کے دھات کی سلاختیں، کرکٹ کے بلے اور پتھر لے کرآئے تھے، انہوں نے بایئں بازوجواہرلال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ لیڈران پرحملہ کیا، وہ ہی کیمپس جس پر۱۰مہینے پہلےسنگھ بال نے لکھا تھا کے اسکوآرایس ایس خطرہ ہے۔ یہ حملے بھارت کی آزاد خیال، سیکیولرکورکا بلکل الٹ تھا اوراس نے کئی بھارتیوں کے بدترین ڈرکی تصدیق کی تھی۔ جیسا کے ارندھتی رائےنے کارواں کی کووراسٹوری میں لکھا تھا، “آرایس ایس کے لئیے دکھانا کے آج جو ایک اہم انقلاب کے طور پہ انجینیئرہورہا ہے جس میں ہندوصدیوں کا مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں ہونے والا جبربالاخرمٹا رہے ہیں، دراصل ایک جعلی تاریخ بنانے کا پروجیکٹ ہے۔ یہ خیال، انڈیا کی ہر خوبصورتی کوتیزاب میں بدل دیتا ہے۔”
پھر، پچھلی بہارمیں، کووڈ۔19 کے آغاز میں، مودی اور آرایس ایس کی آمرانہ قابلیت کی فکر رکھنے والے تجربکارمشاہدین کو ظاہر ہوگئی تھی۔ بھارت کا پہلا کیس جنوری میں تصدیق ہوا تھا، جنوبی ریاست کیریلا میں، بلکہ اسی دن جب ورلڈ ہیلتھ آرگنایئزیشن نے اسے عالمی صحت کی ایمرجنسی قراردے دیا تھا۔ لیکن مودی نے مہینوں اس پینڈیمک کے بارے کچھ خاص نہیں کہا۔ اسکے بجائے، انہوں نے بڑے پیمانے پر، صدر ٹرمپ کی گجرات آمد پرتقریب کا انعقاد کیا جہاں پر، ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے مجمے نے ٹرمپ کا استقبالیہ ایسے جوش سے کیا جیسے کے قومی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ اس دوران بھارتی تاجروں نے اپنا کام جاری رکھا، حفاظتی سوٹس، گاوؐن اور دستانے برآمد کرتے رہے اور مقامی اسپتالوں کو انکی بنیادی ریسورسز سے محروم کرنے کا دھمکی دیتے رہے۔
19 مارچ کے روز، جیسے ہی ملک بھر کے اسپتال بھرنے شروع ہوئے، موودی نے ٹی وی پر اپنا پہلا اجلاس کیا۔ انہوں نے”جنتا کرفیو” کے لیئے کہا اور بھارتیوں سے کہا کہ وہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کے لیے اپنی بالکونیوں میں تالیاں بجائیں جیسے نیو یارک اور اٹلی کے لوگ کررہے تھے۔ اس ہی ہفتے مودی ٹیلی ویژن پرآٹھ بجے دوبارہ آئے اورانہوں نے اعلان کیا کہ رات بارہ بجے سے پورا ملک یعنی 31 کھرب کی آبادی سخت لاکڈاون میں ہوگی۔ سب مارکٹین بند ہوں گی، ساری ٹرانسپورٹ معطل، نہ کوئی پارک کھلا ہوگا، اور کسی کو بھی باہر چلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسکے کچھ دیر بعد ہی، سوشل میڈیا پروڈیوزآنی شروع ہوگئی جس میں پولیس لوگوں کو سڑکوں پرپیٹ رہی تھی جس میں ایک ڈاکٹر بھی شامل تھا جو کی اپنی ڈیوٹی سے گھرجارہا تھا۔
اس وبا کے پھیلاو کے نتائج فوری اورسنگین تھے۔ بھارت کے وزیرصحت نے اسکا الزام اسلامی تحریک، تبلیغی جماعت پر لگایا کے ایک گروپ کے مزہبی سرگرمی کے لیے اکھٹا ہونے سے ملک کی ایک تہائی کورونا وائیرس انفیکشن ہوا۔ مسلمانوں پرملک بھر میں حملے ہونے لگے، اکژر لوگوں کا ہجوم انکو پیٹتا۔ پنجاب کی ریاست میں، سکھوں کے مندروں سے اعلان جاری ہونے لگا کے مسلمان گوالوں سے دودھ لینا چھوڑدیں۔ جماعتوں کے کارکنوں نے لوگوں کو “کورونا جہاد” کے بارے میں خبردارکرنا شروع کردیا۔ کروڑوں ورکروں کواچانک کام سے برطرف کردیا گیااورکیونکہ نہ بسیں تھیں اورنہ ہی کھانے کو کچھ میسرتھا، غریب ورکروں کے ہجوم نے اپنے گاوؐں کی طرف سلومارچ شروع کردی۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ بھارت کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔بڑے شہروں سے بھاگے لوگ دنوں تک چلے، ہاتھ میں وہ سب کچھ تھامے جو وہ سنبھال سکتے تھے، برتن اور پین اور کمبل، بیل،اور بچے۔ دو درجن سے زائد لوگ تھکاوٹ اورپانی کی کمی سے چل بسے، ان کی لاشیں ہائی وے کی کنارے پڑی رہیں۔ عجیب طور پر، پولیس جواسٹیٹ بارڈرکا گھیراوؐ کررہے تھےانہوں نے لاکڈاوون کونافذ کیا لاٹھی سے لوگوں کو پیٹ کر اورکچھ کیسزمیں مردوں کواسکواٹ کرکے بیٹھیں اور مینڈکوں کی طرف اچھلنے کوکہا تاکہ انکو شرمندہ کیا جائے۔
توقعات کےمطابق، بھارت کی مرکزی دھارے میں شامل پینڈیمک کی کووریج بی جے پی کی طرف سے آرچسٹریٹڈ تھی۔ لاک ڈاوؐن سے ایک دن پہلے مودی نے ہنگامی طورپروڈیوکانفرنس کال کی ملک کے پڑے میڈیا اداروں اورایڈیڈرکے ساتھ ۔ انہوں نے ہدایت دی کے رپورٹر، “حکومت اور عوام کے درمیان لنک کے طورپرکام کریں” اورانکی انتظامیہ کی اس وبا سے نمٹنے کی کوششون کے بارے میں “مثبت اورانسپایئرنگ” اسٹوریزشائع کریں۔ اسکے بعد، کچھ ایڈیٹرز نے ٹوئیٹرپروزیر اعظم کا شکریہ کیا انہوں نے ” آگے بڑھنے کے لئیےاسٹریٹیجک وضاحت دی۔”
کارواں کے ایڈیٹرز کواس ملاقات میں دعوت نہیں دی گئی۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ میگزین ، کچھ اورآنلائن آوٹلٹس کے ساتھ ساتھ جیسے کے وائر اوراسکرول، ایپیڈیمک کو تنقیدی اور غیر جانبداریانہ انداز میں کوور کر رہا تھا۔ کارواں کی بڑی اسٹوریز میں سے ایک یہ تھی کہ کیسے موودی انتظامیہ لاکڈاوؐن نافز کرنے سےپہلے انڈین کاونسل آف میڈیکل ریسرچ، جو کے ملک بھر کے 20 معروف سائسدانوں پر مشتمل اسپیشل ٹاسک فورس ہے اس میں سے کسی سے بھی مشاورت نہیں لی تھی۔اس آرٹیکل کے جواب میں، حکومت کے پریس آفس نے ٹوئیٹ کیا کہ: “کسی بھی بے بنیاد اورجعلی میڈیا رپورٹس پر یقین نہ کریں” اور اس پر لال رنگ سے “جعلی جعلی جعلی” امپرنٹ کردیا۔ مئی تک، روز کی اموات 100 سے زائد لوگوں تک جا پہنچی، اور رپورٹڈ انفیکشنز کی تعداد 50,000 تک۔
“یہ سب کہاں جارہا ہے؟” ہوزے نے پوچھا جب ہم حال ہی میں واٹس ایپ پر بات کررہے تھے۔ “بہت ہی بڑی بربادی کی طرف، اور سانحوں کی طرف۔” انھوں نے الفاظوں میں وقفہ دیا اور ہلکے ہلکے بات کی۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ تھکن اور اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں اس بات سے کہ کارواں کی تفتیش ایک میڈیا خلا میں جا کرختم ہوجاتی ہیں اور کم ہی، حکومت کی پالیسیوں میں کوئی فرق پڑتا ہے اورنہ ہی موودی کی مقبولیت میں۔
“چیزیں یہاں سے مزید بدترہوسکتی ہیں۔ یہ ایک گرامشین چیز ہے جس میں دانشوری کی مایوسی اورپختہ ارادوں کی امید”، انہوں نےغیرحاضر طورپہ کہا۔ “بحران مزید پستی کے طرف لے کر جا سکتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اقتدارٹھہرا رہتا ہے۔ سلطنتیں گرجاتی ہیں، تاج کوبھی گرا دیا جاتا ہے۔ اب آرایس ایس ریاست ہے۔ میرے پیچھے جوعمارت ہے یہ ریاست ہے۔”
انہوں نے اپنے فون کے کیمرے کا رخ اپنے پیچھے کے منظر کی جا نب کیا۔ میرے آخری بار دیکھنے کے بعد سے، آرایس ایس کے نئ دہلی کے ہیڈ کوارٹربڑے ہوگئے تھے، دوکنکریٹ کے ٹاور صبح کے آسمان کی سفید دھند میں۔ ہوزے کا اندزاہ تھا کہ یہ عمارت ، بھارتی پارلیمنٹ، صدرہاؤس اوروزیراعظم ہاوؐس سب کو کل ملا کر بھی ان سے زیادہ لوگوں کوجگہ دے سکے گی۔ ہوزے نے کیمرہ کھڑکی کے قریب کیا تاکہ مجھے قریب سے نظارہ مل سکے۔ تٹورکیمرے کے فریم پرحاوی رہے جب تک خاموشی طاری رہی۔ پھر ایک دم سے، ہوزے کیمرے کوآفس کے پس منظرمیں لائے، وہاں کے کاغزات، فائیل کیبنٹس، واشنگٹن پوسٹ کے نیکسن کا استعفی کا فوٹو فریم اورعمارتیں نگاہ سےغائب ہوگیئں۔
یہ مضمون سب سے پہلے ورجینیا کوارٹرلی رویو میں شائع ہوا اور مصنف کی اجازت سے یہاں دوبارہ پیش کیا گیا۔ اس کہانی کی حمایت پلٹزر سنٹر نے کی۔