لاپتا افراد کا سراغ: فرنٹ لائن پر کام کرنے والے تحقیقاتی صحافیوں کی ہدایات

Print More

تصویر: بین الاقوامی کمیشن برائے لاپتا افراد

منظم جرائم پیشہ گروہ کاروباری ، موقع پرست، طفیلیے اور پوشیدہ ہوتے ہیں۔ خطرناک ہونے کے باوصف یہ ایک تحقیقاتی صحافی کے لیے دلچسپ موضوع ہیں۔ یہ گروہ لوگوں کو ناکارہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر گمشدگی کو اوزار کی طرح استعمال کرتے ہیں، بعض اوقات تاوان کے لئے، گواہوں کو خاموش کرانے کے لیے، یا یہاں تک کہ اپنے مقابلہ کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔

ریزلیینس فنڈ کی مشترکہ میزبانی میں جی آئی جے این کی گمشدہ افراد کی کھوج کرنے پر ویبینار سیریز نے چھہ ممالک کے صحافیوں کو جمع کیا، جو ان معاملات کی تحقیقات کے ماہر ہیں۔ سیشنز میں گفتگو ان معملات میں صحافیوں کے قردار پر ہوئی جہاں متاثرین یا قصوروار غائب ہو جائے۔ نیچے لاپتہ افراد کی تفتیش کے لئے کچھ اہم نکات اور ہدایات دی گئ ہیں۔  

 مکمل تصویر کشی 

فلپائن میں معروف آن لائن نیوز سائٹ ریپلر کی منیجنگ ایڈیٹر گلینڈا گلوریا نے فلپیائن کے باغی جوناس برگوس کی گمشدگی کی تحقیق کی جو اپریل 2007 میں لاپتہ ہوئے۔ گلینڈا کے بہ قول اہم بات یہ ہے کہ صحافی کسی لاپتا شخص کا سراغ لگانے کی کوشش کے دوران اپنے وجدان کی پیروی کریں۔ وہ کہتی ہیں:”لاپتا افراد کی کھوج لگانے سے قبل ہمیں ہمیشہ ایک دوسرے سے، رپورٹروں اور ایڈیٹروں کو یہ کہنا چاہیے کہ اپنی جبلت پر اعتماد کریں اور سیاق وسباق کو اپنی جبلت کو مطلع کرنے کا موقع دیں۔”

گلوریا کے نزدیک اس طرح کی کہانیوں میں صحافیوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ “یہ رپورٹروں کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ عوام لاپتا افراد کے بارے میں سوچے۔” وہ متاثرہ شخص کو ایک’’انسانی چہرہ‘‘عطا کریں تو کہانی میں زیادہ لوگ دلچسپی لیں گے اور نئے ذرائع آگے آئیں گے۔  

انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کو سرکاری حکام کو ذرائع کے طورپر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے،حتیٰ کہ ان جگہوں میں بھی نہیں جہاں صحافیوں کو یہ شُبہ ہو کہ حکام کس قدر مدد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں:”جب آپ خوف کے ماحول میں اور ایک مطلق آمرانہ رجیم میں کام کررہے ہوتے ہیں تو بعض اوقات آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ تمام قانونی چینلز مدد نہیں کریں گے لیکن بعض اوقات ایسا معاملہ نہیں ہوتا ہے۔”

اپنا مقام پہچانیں

میکسیکو سے تعلق رکھنے والی صحافی مارسیلا ٹوراٹی لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تحقیقات میں ماہر مانی جاتی ہیں۔ وہ غیر منافع بخش ’کوینٹو ایلیمنٹو لیب‘ کی بانی رکن ہیں۔ وہ اس یقین کی حامل ہیں کہ صحافیوں کو ایسے کیسوں سے متجسس ذہن کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔

انہوں نے ہسپانوی میں جی آئی جے این کے ویبینار میں بتایا، “ہمارا سارا کام اپنے آپ سے سوالات پوچھنے پر منحصر ہے۔” ۔سوال یہ ہیں: “کوئی کہاں غائب ہوا، وہ کیوں غائب ہوا، کون ہے جو یہ جرم  کرنا چاہتا ہو گا؟” 

ٹوراٹی یہ تجویز پیش کرتی ہیں کہ تحقیقاتی عمل کا خاندان سے آغاز ہونا چاہیے،پھر ذرائع کو ایک وسیع سلسلہ تک پھیلا دینا چاہیے، مگر ہرکسی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے،”تمام معلومات کو تنقید کی نگاہ سے دیکھنا  ہے –  فورینزک فائل کو بھی۔”

 سرکاری ڈیٹا میں ہیر پھیرہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ یہ سفارش کرتی ہیں کہ جہاں ممکن ہو، وہاں شواہد کا آزادانہ ماہرانہ جائزہ لیا جائے۔ وہ صحافیوں کو بھی خبردار کرتی ہیں کہ انہیں اپنی حد کے بارے میں حساس ہونا چاہیے اور جرم کی تفتیش میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا،”آپ کو کسی جائے وقوعہ تک رسائی میں محتاط ہونا چاہیے کیونکہ اگر آپ ماہر نہیں ہیں تو بڑی آسانی سے آپ کسی بھی چیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ صحافی فورینزک ماہر نہیں ہوتے اور ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے۔” 

ثبوت تو دستاویزات کا سراغ ہے 

 فرانسیسی صحافی تھیو اینگلبرٹ نے لاپتا افراد کے ایک مختلف قسم کے کیس کی تحقیق میں ایک عرصہ گزارا ہے۔انھوں نے ایک منظم جرم  کا نشانہ بننے والے شخص کی تلاش کے بجائے  افریقی ملک روانڈا میں نسل کشی کے ایک مبینہ مجرم الائس ٹیویرا گابو کی کھوج لگائی۔ اس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ وہ فرانس میں کہیں روپوش ہے۔

اینگلبرٹ چونکہ ایک ایسے شخص کے معاملے کی تحقیق کررہے تھے جس نے یقیناً خود روپوشی کا انتخاب کیا تھا توان کی حکمت عملی قدرے مختلف رہی تھی۔ چناںچہ انہوں نے دستاویزات کی چھان بین شروع کی۔ یہ ایک طرح سے دستاویزات کا سراغ تھا جس کی مدد سے وہ ٹیویرا گابو تک پہنچ سکتے تھے۔ اینگلبرٹ خصوصی سرچ انجنوں کو بروئے کار لانےکی سفارش کرتے ہیں، جیسے کے، ‘Recoll‘ جس کی مدد سے دستاویزات تلاش کیے جس سکتی ہے۔  

انہوں نے ٹیویراگابو کے فرانسیسی ویزے سے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ انہیں یہ شُبہ تھا کہ اس کے لیے 2001ء میں درخواست دی گئی تھی لیکن اس میں روانڈا کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ اینگلبرٹ نے نہایت ہوشیاری سے ایک مختلف حربہ استعمال کیا۔ انہوں نے فرانس کے اپیل بورڈ سے رابطہ کیا اور اس سے ٹیویراگابو کے مشمولہ نام سے متعلق ایک فیصلے کی وضاحت طلب کی۔ 

اس طرح کے دستاویز کو بالعموم صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے لیکن بورڈ نے اپنے فیصلہ کے ایک ایسے ورژن کے ساتھ جواب دیا جو صیغہ راز نہیں تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ ایف ڈی ایل آر کے جنرل میجر نے فرانس میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی۔

یہاں اینگلبرٹ کا آزادیِ اطلاعات کے قانون اور اپیل کے عمل سے متعلق علم کام آیا اور انہیں ایک بنیادی اشارہ مل گیا اور پھر حاصل کردہ دستاویزکی مدد سے انہیں ٹیویرا گابو کی جائے قیام کا ثبوت بھی مل گیا۔

اپنی سرحدوں سے ماورا دیکھیں

لیلا مینانو نے روئیسی کے ہوائی اڈے سے میڈیا پارٹ کے لیے روانگی کے بعد لاپتا ہونے والے کم عمر ویت نامیوں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی سطح پر سوچا۔ منظم جرائم اکثرملکی حدود کو عبور کرتے ہیں اور اس میں ایک سے زیادہ ملکوں کے کھلاڑی شامل ہوتے ہیں۔ مینانو کہتی ہیں کہ صرف فرانسیسی ذرائع پر انحصار کرنا وقت کا ضیاع ہوتا۔ چناچہ انھوں نے بچوں کے اغوا کی رپورٹنگ کرنے والے دوسرے خبری ذرائع تلاش کیے اور معملے کی تصویرکشی کی لیے گوگل ٹرانسلیٹ کو استعمال کیا۔ 

مینانو دوسری بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کے فراہم کردہ ذرائع ووسائل کو استعمال کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیتی ہیں۔ ان میں منظم جرائم اور کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آرپی)، انٹرپول یا ’یورپ میں لاپتا‘ جیسی تنظیمیں شامل ہیں جو لاپتا ہونے والے تارکِ وطن بچوں کے معاملات کو دیکھتی ہیں۔

ممیانو نےکہا کہ تحقیقات کو محدود کرنے کے لئے کسی ایک مفروضے یا مقصد سے آغاز کریں۔ انہوں نے اپنی تحقیقات سے مثال پیش کی اور کہا کہ کم عمر ویت نامی بچوں کو لاپتا ہونے سے بچانا فرانسیسی ریاست اورنظامِ انصاف کی ذمے داری ہے۔ پھر وہ  اس کو صحافیوں کے کردار سے جوڑتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بہت سے مضامین میں متاثرین کی آوازوں کو اجاگر کیا گیا ہے مگر صحافیوں کو اس سے دو قدم آگے جا کر ان نظاموں اور تنظیموں پر روشنی ڈالنی چاہیے جنہوں نے مجرمانہ سرگرمیوں کو چلنے دیا ہے۔

چوکنا رہیں،’بُرے لوگوں‘ سے بھی ناتا جوڑیں

ایسکار مارٹنیز ایل سلواڈور میں مقیم ، ایل فارو میں خصوصی تفتیشی ایڈیٹر ہیں ، اور انہیں منظم جرائم اور تارکین وطن سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔ جی آئی جے این کے ہسپانوی ویبی نار میں انہوں نے شواہد اکٹھا کرنے، ذرائع سے ثبوت اکٹھا کرنا اور ذرائع سے نمٹنے کے مشورے دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ “کسی شخص کا انٹرویوکرنا صرف ٹیپ ریکارڈ چلانا نہیں ہے۔  بلکل نہیں۔ آپ کو اس سے آگے جانا ہے۔ ۔ایک صحافی کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپٹ پولیس کے ارکان، پراسیکیوٹروں اوردوسروں سے بھی ناتا بناہیں۔ بعض اوقات بہترین ذرائع فلموں میں برے لوگ ہوتے ہیں۔”

انہوں نے بتایا کہ یہ “بُرے لوگ” تحقیقات میں بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں لیکن، یہ جاننا ضروری ہے کہ ان سے کیسے رجوع کیا جائے۔ “آپ کو ان کے بات کرنے کے طریقے، حرکات کو جاننا ہوگا۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ایک منظم جرائم پیشہ گروپ کے ممبران ان سے رجوع کرتے ہوئے سفاکانہ ایمانداری کو سراہتے ہیں ۔ یہ نصیحت مجھے بھلی لگی کہ:گینگ کے ارکان سے ہمیشہ دیانت داری سے بات کیجیے۔”

سب سے پہلے تحفظ 

میکسیکو کے قصبے آلندے میں 2011ء میں قتل عام کی تحقیقات کے لیے دو رپورٹروں جنجر تھامپسن اور آلیہیندرا ژانک نے فیلڈ رپورٹنگ کا سول رجسٹریوں کے ساتھ تجزیہ کیا تاکہ یہ پتا چل سکے کہ کتنے لوگ لاپتا ہوئے تھے۔

تھامسن نے ذرائع کی اہمیت کے بارے میں بات کی اور بتایا کے انہوں نے اور زینک نے لوگوں کو کسی ایسی واقعہ کے بارے میں بات کرنے پر آمادہ کیا جو اتنے عرصہ پہلے ہوا تھا۔ چنانچہ قتل عام اور ان کی رپورٹنگ کا درمیانی وقت رکاوٹ نہیں بنا اور مددگار ثابت ہوا۔ مثال کے طور پر اس کیس میں ایک بنیادی ذریعہ ایک سابق پراسیکیوٹرتھا۔ وہ اب مگس پروری کا کام کررہا تھا۔ اس نے انہیں ایسی معلومات فراہم کی جو اس نے اس سے پہلے کسی کے سامنے افشا نہیں کی تھی۔ تھامپسن نے بتایا کہ ’’وہ قصبے میں ہرکسی کو جانتا تھا اور اس کی بیوی اس سے بھی زیادہ جانتی تھی۔اس لیے ہمارا جب کبھی اس قصبے میں جانا ہوتا تو ہم سب سے پہلے اس کے پاس رکتے اور ملاقات کرتے تھے۔ وہ نہ صرف ہمیں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں معلومات فراہم کرتا تھا بلکہ ہمیں یہ بھی بتاتا تھا کہ ہمارا وہاں رہنا کتنا محفوظ ہے اور ہم کیسے لوگوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘

تھامپسن کا کہنا ہے، “جب ذرائع سے ملاقات ہوتی ہے تو پہلے تین منٹ اہم ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ لوگ پہلے چند منٹوں میں یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ آیا وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ اس بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ آپ کو پسند کرتے ہیں یا نہیں،یا وہ آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور کیا وہ محفوظ محسوس کررہے ہیں۔”

اس طرح کی تحقیقات میں ذرائع اور صحافی دونوں کے لیے تحفظ اہم ہے۔ژانک نے اپنی گفتگو میں ان تمام عوامل کی وضاحت کی جنہیں انہوں نے امریکا اور میکسیکو کی سرحد کو عبور کرتے وقت دیہان میں رکھا۔ “اس حکمتِ عملی میں سکیورٹی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔” انہوں نے کہا، “ہم نے کرائے کی کار میں جانے کی سہولت کے بارے میں تفصیل سے بات کی ، میکسیکن لائسنس پلیٹیں یا امریکی لائسنس پلیٹیں رکھنا بہتر ہوتا گا…. پھر ہمیشہ اپنی کھڑکیوں کو نیچے رکھیں تاکہ آپ آسانی سے دیکھائی دیں …. کہاں پارک کرنا ہے ، کس طرح پارک کرنا ہے۔”

ژانک نے یہ بھی بتایا کہ فراہم کردہ معلومات کو محفوظ بنانا اور پھر اسے مٹانا ان کی اور ذرائع کے تحفظ کے لیے اہم تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک خالی سیل فون استعمال کرتی تھیں۔ وہ ہر رات اپنی ریکارڈنگز کا بیک اپ بناتی اور پھر انہیں فون سے مٹا دیتی تھیں۔

 ہر چیز کا افشاء 

رائیٹرز کے کلیئر بالڈون اور اینڈریو مارشل نے 2018ء میں بین الاقوامی رپورٹنگ کے لیے پیولیٹزرجیتا۔ انہوں نے فلپائنی صدر روڈریگو ڈیوٹرتے کی منشیات کا دھندا کرنے والوں کے خلاف مہلک جنگ، جس میں ہزاروں افراد لاپتا ہوئے، کی تحقیقات کی۔ انہوں نے غیر قانونی عدالتی قتل کے نمونوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو ٹریک کرنے کے لئے اسٹریٹ رپورٹنگ اور ڈیٹا انیلیسیس کا امتزاج کرتے ہوئے قاتلوں کی شناخت کی۔

بالڈون نے زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پولیس کی لاگ بُک کی تصاویر بنانے سے لے کر فیس بُک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ “ہر قسم کی معلومات کومحفوظ کر لیں چاہے آپ کو اس کا کوےی فوری استعمال ہو یا نا۔” بالڈون نے سمجھایا، “اگر آپ کسی شخص کےانٹرویو کے لیے جائیں تو اس سے پوچھیں کی کیا اس کے فون میں کوئی تصاویر ہیں، مقامی دکان دار سے پوچھیں کہ کیا ان کے پاس کسی واقعے کی کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج ہے؟ کیا کوئی ایسا ریکارڈ ہے جس کسی آپ تصویر لے سکتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آپ جتنی مرتبہ بھی اس ریکارڈ کی چھان بین کریں گے تو آپ اس کو مفید پائیں گے۔”

مارشل کے لئے، ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا تفتیش کی کامیابی کے لیے اہم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ “میرے خیال میں کسی کے ساتھ مل کر کام کرنا بہت مددگار ثابت ہوتا ہے، یہ صرف ٹراما کے نقطہ نظر ہی سے اہمیت کا حامل نہیں بلکہ اسٹوری کی بُنت کاری کے لیے بھی اہم ہے۔ چناچہ میں اور کلیئر مستقل گفتگو کرتے رہتے تھے اور میرے خیال میں ہمارا یہ مستقل ساتھ ہم نے جو کچھ دیکھا اور کیا،اس میں بہت مفید اور مددگار ثابت ہوا تھا۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حناہ کوگنس جی آئی جے این میں ایڈیٹوریل اسسٹنٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔انہوں نے سٹی یونیورسٹی، لندن سے تحقیقاتی صحافت میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ قبل ازیں وہ ہانگ کانگ میں جنگلی حیات کے جرائم اوراسمگلنگ کے بارے میں محققہ کے طور پر کام کرچکی ہیں۔ وہ لندن میں مقیم ہیں اور برطانیہ کے چینل 4 کے مختلف پروگراموں کے لیے بھی کام کرچکی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *