
فوٹو: اینڈریو نیل
فری لانس تحقیقاتی صحافیوں کو اپنا نام بنانے یا پھر اپنی بقا کی خاطر ہی سہی، یہ عادت اپنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ کی اشاعت اور معاوضے کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع کی تلاش میں سرگرداں رہیں۔
مثال کے طور پر،فیلڈ میں ایک کنٹریکٹ رپورٹر کسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے لیے اسکائپ پر رپورٹ کا انتظام کرسکتا ہے،وہ اپنی نوٹ بُک میں بعد میں کسی میگزین میں فیچر لکھنے کے لیے مواد کے اہم نکات قلم بند کرسکتا ہے،وہ کسی متعلقہ تجارتی اخبار یا مجلے کے لیے کسی عہدہ دار کا سوال وجواب پر مبنی انٹرویو کرسکتا ہے، ریڈیو کے لیے (تحقیقاتی رپورٹ کی) آڈیو ریکارڈ کی جاسکتی ہے،اگر ممکن ہوتو دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے۔ نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے اور مرکزی اسٹوری کے بطن سے برآمد ہونے والے ذیلی موضوعات پر طے کردہ ایجنڈا سے ہٹ لر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔
فری لانسروں کو یقینی طور پر ادارتی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ پھر ’آف ایجنڈا‘ اثرات کی ایک بھرپور اور توانا تاریخ ہے۔اس کی اوّلین نمایاں مثالوں میں سے ایک سیمور ہرش کی ’مائی لائی قتلِ عام‘ پراسٹوری تھی۔ تحقیقاتی صحافیوں کو خبر جمع کرنے کی ہرکوشش کوقبول کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ میڈیا کے تمام پیشہ وروں سے زیادہ مشکل صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔
مرکز برائے تحقیقاتی رپورٹنگ کے سابق نامہ نگار اور اب کیلی فورنیا یونیورسٹی ، برکلے میں صحافت کے لیکچرر مارک شپیرو کے بہ قول طرز تحریر میں جدّت،تیزی و طراری ،مضامین ، اسٹوری پیکجنگ اور میڈیا انتظام کسی بھی قابل عمل کیرئیر کے لیے سب سے ہم حکمت عملی ہے۔انھوں نے گیارھویں عالمی کانفرنس براۓ تحقیقاتی صحافت میں ’’فری لانسنگ کا کاروبار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ پینل میں یہ گفتگو کی تھی۔اس میں انھوں نے فری لانسروں کے لیے بعض مفید نکات بیان کیے تھے۔
شپیرو کا کہنا تھا:’’آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسٹوری جتنی کم پیچیدہ ہوگی ،اس کا معاوضہ آپ کو اتنا ہی زیادہ ملے گا۔ ہم ملٹی میڈیا دنیا میں رہ رہے ہیں۔یاد رکھیں کہ اگر آپ کسی ٹی وی شو کو اپنا مواد بیچتے ہیں تو آپ تین گُنا زیادہ آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔آپ کسی پروڈیوسر کے ساتھ کام کررہے ہیں تو وہ بخوشی رہ نما ہدایات کے ساتھ آپ کی مدد کرے گا۔‘‘
نیروبی سے تعلق رکھنے والے فری لانس ڈیٹا جرنلسٹ کیرولین تھامسن کہتے ہیں کہ اب ملکر رپورٹنگ کرنے کا عمل آزاد رپورٹروں کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا خبری اداروں میں اہم ہوتا ہے۔تھامسن خود اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے جدّت پسندی اختیار کرتے ہوئے موبائل فون کے ذریعے ایک سروے کیا تھا۔اس کے ذریعے اس ٹیم نے یہ انکشاف کیا تھا کہ جنوبی سوڈان میں سرکاری یونٹوں نے کیسے ہزاروں لوگوں کو ان کی آبائی زمینوں سے محروم کردیا ہے۔
اگر کوئی ایک ایڈیٹر ناں میں جواب دیتا ہے تو اسٹوری مرتی نہیں بلکہ آپ کسی اور ایڈیٹر کے پاس جا سکتے ہیں وہ انکاری ہوتا ہے تو کوئی اور سہی۔ کوئی بھی ایڈیٹر آپ کو یہ نہیں کہ سکتا کہ آپ اپنی اس اسٹوری سے دستبردار ہوجائیں
وہ کہتے ہیں کہ ’’جب آپ ایک مشکل خطے میں کام کررہے ہیں تو آپ کو اپنے معاونتی نیٹ ورک کی تشکیل کے لیے دوسرے فری لانسروں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نیٹ ورک میرے لیے تو ناقابلِ یقین حد تک مدد گار ثابت ہوا ہے وہ یوں کہ میں ڈیٹا جرنلزم میں مہارت اور بین الاقوامی اخبار وجرائد سے روابط کو بروئے کار لاتا ہوں اور جن فری لانسروں سے میرا رابطہ ہے ان سے مقامی حالات کو گہرائی سے جاننے کے لیے راہ ورسم استوار کرتا ہوں پھر ہم ایک دوسرے کے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے غور کرتے ہیں‘‘
افریقہ بھر میں تن تنہا مختلف موضوعات پر تحقیقات کرنے والے عمانوایل فرائیڈینتھال یہ نشان دہی کرتے ہیں کہ اس طرح کی کامیاب حکمت عملیاں اسی وقت قابل عمل ہوسکتی ہیں اگر فری لانسروں کے پاس ایک مناسب قابل عمل منصوبہ ہو تاہم وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طرزِ زندگی کے تمام تر چیلنجز کے باوجود تحفظ صحت ، با تن خواہ چھٹی اور باقاعدہ اجرت کی عدم دستیابی کی صورت میں ایک تحقیقاتی فری لانس کیرئیر صرف ان لوگوں کے لیے وقعت کا حامل ہوگا جو کوئی جذبۂ محرک رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ اس کے درحقیقت بہت سے مفید اور مثبت پہلو ہیں آپ اس پر یقین کریں یا نہ کریں اگر کوئی ایک ایڈیٹر ناں میں جواب دیتا ہے تو اسٹوری مرتی نہیں بلکہ آپ کسی اور ایڈیٹر کے پاس جا سکتے ہیں وہ انکاری ہوتا ہے تو کوئی اور سہی۔ کوئی بھی ایڈیٹر آپ کو یہ نہیں کہ سکتا کہ آپ اپنی اس اسٹوری سے دستبردار ہوجائیں جس پر آپ نے اپنا قیمتی وقت صرف کیا ہے اور پھر کوئی ’’واٹر کولر سیاست‘‘ بھی نہیں ہوتی ہے‘‘
اسٹوری کی تلاش کے گُر
غیر معروف جرائد ، تجارتی میگزین اور مقامی اخبار یا مجلے پڑھیے یا ان کے خریدار بن جائیے۔ شپیرو کہتے ہیں:’’ ہر کوئی رپورٹر نیویارک ٹائمز اور دا گارڈین وغیرہ تو پڑھتا ہے لیکن آپ کو وہ کچھ پڑھنے کی ضرورت ہے جو دوسرےصحافی حضرات نہیں پڑھتے
کتب خانوں (لائبریریوں) کے مفت وسائل کو استعمال کریں اور لائبریرین حضرات کے علم سے استفادہ کریں ایک رپورٹر کے بقول لائبریرین نے انھیں لیکسِس ، نیکسِس سرچ انجن کے نتائج کو کسٹم فلٹر کرنے کے بارے میں بتایا تو اس کے بعد دو سال تک ان صاحب کی رپورٹنگ کا کام نکل آیا۔
اپنی اسٹوری کے آئیڈیاز اور مختلف زاویوں پر اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے تبادلہ خیال کریں اور ان سے ان کی سماعت کردہ بہترین اسٹوری کی بابت پوچھیں۔اس ضمن میں یہ ایک مفید سوال ہوسکتا ہے:’’آپ نے عشائیہ کی تقریب میں سب سے دلچسپ کہانی کیا سنی تھی؟” جب بھی ممکن ہو،عدالت کے ریکارڈ اور بلاگز کا مطالعہ کیجیے اور پھر ظہور پذیر کسی بھی طرز یا انداز کے بارے میں سوچیے
کاروباری انتظام کے گُر
اپنی لاگت کے انتظام کے لیے آن لائن دستیاب مفت ایڈمن ٹولز استعمال کیجیے۔مثال کے طور پر اخراجات کو منظم کرنے کے لیے Smart Receipts Plus کو استعمال کریں۔فرائیڈینتھال یہ بھی سفارش کرتے ہیں کہ آپ کو ایسی ایپس بھی استعمال کرنی چاہییں جو آپ اور آپ کے گاہک، دونوں کو انوائس کی حتمی تاریخوں کی یاددہانی کراتی رہیں۔
اگر آپ نے اپنے فری لانس کاروبارکا بجٹ بنا لیا ہے تو پھر اپنے کام کی کم سے کم فیس کا تعیّن کرلیجیے اور پھر اس بات کے لیے تیار رہیے کہ اگر اس عدد سے کم مالیت کے منصوبے آتے ہیں تو ان پر کام سے انکار کردیا جائے گا۔
بین الاقوامی صحافیوں کے نیٹ ورک اور عالمی نیٹ ورک برائے تحقیقاتی صحافت سے ممکنہ گرانٹ کے حصول کے مواقع کی تلاش کیجیے ۔وہاں آپ کو یہ پتا چل سکتا ہے کہ آپ کے کام کی مالی معاونت کرنے والوں سے کیسے مطابقت پیدا کی جاسکتی ہے۔
متوقع اور وقت کی حساسیت کے ضمن میں اپنے اسٹوری آئیڈیاز کی ایک فہرست مرتب کیجیے۔ جب بڑی اسٹوری کا خاکہ بہت سادہ دکھائی دے رہا ہے تو پھر قدرے کم فوری نوعیت کی اسٹوریوں پر اپنی توجہ مرکوز کیجیے۔
اپنی غیر اجرتی چھٹی کے وقت میں آرام کیجیے اس کو ایک ایڈمن کے وقت کے طور پر ضائع مت کیجیے اور نہ کسی سفری کہانی پر صرف کیجیے۔ آپ کو آنے والے وقت کے لیے اپنی بیٹریوں کو چارج رکھنے کی ضرورت ہے
اپنے کام کی اور ذاتی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیجیے اگر یہ بظاہر بطور صحافی آپ کی فطرت کے منافی ہے تو پھر بھی ایسا کیجیے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ کی ویب سائٹ پر آپ کا ای میل ایڈریس اور تجربے کی تفصیل واضح طور پر نظر آرہی ہو
اپنے ماضی کے کام اور روابط کی فہرست کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ کیا آپ کسی ایک موضوع پر خود کو ایک ماہر کے طور پر پہچانتے ہیں۔
اس وقت میدان میں اتریں جب آپ کے پاس کسی اسٹوری کا کوئی ٹھوس آئیڈیا موجود ہے یا سردست’’کم سے کم اسٹوری‘‘ موجود ہو ناں کہ اس وقت جب آپ مکمل اسٹوری کی تلاش میں اپنا وقت اور وسائل صرف کرچکے ہوں
آمدن کے بڑھانے کے نسخے
جتنا زیادہ ممکن ہو خبری ذرائع کا مواد پڑھیۓ یا اس کا جائزہ لیجیے اور ان کے طرزِ تحریر میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے
اپنی اسٹوری کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیجیۓ کہ کیا اس کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اورآیا آپ ان سب کا الگ الگ پیکج بنا سکتے ہیں
ایک ہی اسٹوری کے ملٹی میڈیا ایڈیشن کا جائزہ لیجیے اور کسی بھی غیر موافق میڈیا فارمیٹ سے خوف زدہ مت ہوں ٹی وی اور ریڈیو کے پیش کاروں کے ساتھ موقع پر فیلڈ رپورٹس کے لیے انتظامات تیار رکھیے اس طرح کی دومنٹ کی نشریاتی گفتگو سے اکثر 300 ڈالر تک کمائے جا سکتے ہیں
اگر آپ لکھاری ہیں تو الفاظ کی گنتی کی بنیاد پر معاوضہ طے کرنے سے گریز کیجیے کیونکہ تحقیقاتی اسٹوریوں کی یا تو مشق نہیں کی جاتی ہے یا پھر ان کی تصدیق کے لیے مزید وقت درکار ہوتا ہے یا پھر پبلشر حضرات مواد میں قطع وبرید کرسکتے ہیں اسکے بجائے ہفت وار یا ماہوار بنیاد پر اپنے تحقیقاتی کام یا تحقیقات پر صرف ہونے والے وقت کا معاوضہ طے کیجیے اور ایسا کنٹریکٹ کیجیے کہ آپ کو ایسے تحقیقاتی مواد کا بھی معاوضہ ملنے کی ضمانت حاصل ہوجو شائع ہی نہیں ہورہا ہے آپ اس کی یہ وضاحت کرسکتے ہیں کہ فیس کے خاتمے کی کوئی بھی شق ضروری نہیں ہوگی اور آپ محدود اور سادہ کاپی رائٹ کی شق پر غور کرسکتے ہیں کسی بھی کنٹریکٹ میں اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ کسی کے رحم وکرم پر نہیں ہیں
ذاتی طور پرایک پختہ حتمی وقت اور تاریخ کا تعیّن کیجیے تھامپسن کہتے ہیں:’’دیکھیے ،آپ اتنا ہی سیکھ سکتے ہیں جتنا آپ آگے جائیں گے لیکن میں (اس کانفرنس کو) ایک بڑی اسٹوری کی اشاعت کے لیے ڈیڈلائن کے طور پر مقرر کرتا ہوں یا میں ایسا نہیں کرتا ہوں تو پھر یا تو مجھے ایک فری لانسر نہیں ہونا چاہیے اور یہ تو میں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رووان فلپ،عالمی نیٹ ورک برائے تحقیقاتی صحافت (جی آئی جے این) کے لیے رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔وہ اس سے پہلے جنوبی افریقا کے اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ کے چیف رپورٹر تھے۔وہ دنیا بھر میں پچیس، تیس ممالک میں غیرملکی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔وہ عمومی خبروں کے علاوہ سیاسیات ، بدعنوانیوں اور تنازعات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔